عورتوں کی جماعت سے متعلق روایت لا خیر فی جماعة النساء کی تحقیق
ماخوذ: فتاوی علمیہ جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ266

سوال

اس روایت کی تخریج درکار ہے:
"لاخير في جماعة النساء الا في مسجد”
(عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں سوائے مسجد کے)
(مجمع الزوائد منبع الفوائد کتاب الصلاۃ 2/118 حدیث 2104، المعجم الاوسط للطبرانی حدیث 9359 طبع جدید)
(محمد محسن سلفی، کراچی)

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایت کی تخریج

یہ روایت متعدد اسناد کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں مذکور ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1. مسند احمد (6/66 حدیث 24888)
"فقال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا ابن لهيعة ثنا الوليد بن أبي الوليد قال سمعت القاسم بن محمد يخبر عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد أو جنازة قتيل”
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عورتوں کے اکٹھا ہونے میں کوئی خیر نہیں مگر مسجد میں یا کسی مقتول کے جنازے میں۔”

2. مسند احمد (6/154 حدیث 25728)
"حدثنا حجاج: حدثنا ابن لهيعة عن الوليد أبي الوليد قال: سمعت القاسم يخبر عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة أو جنازة قتيل”

3. المعجم الأوسط للطبرانی (ج10 ص166 حدیث 9355)
"حدثنا هارون بن كامل ثنا أبو صالح الحراني نا ابن لهيعة عن الوليد بن أبي الوليد عن القاسم بن محمد عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة أو جنازة قتيل”

سند کا جائزہ

راوی: عبد اللہ بن لہیعہ المصری
مختلف فیہ راوی ہیں۔
ان کے بارے میں راجح بات یہ ہے کہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف قرار دیے گئے۔

ان کی روایت دو شرطوں کے ساتھ حسن ہو سکتی ہے:
➊ وہ سماع کی تصریح کریں، کیونکہ وہ مدلس تھے۔
(ابن حبان: "یدلس عن اقوام ضعفاء”)
➋ ان کی روایت اختلاط سے پہلے کی ہو۔

اختلاط سے پہلے ان سے روایت کرنے والے:
عبد اللہ بن المبارک
عبد اللہ بن وہب
عبد اللہ بن یزید المقری
یحییٰ بن اسحاق السلحینی
عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی
الولید بن مزید
عبد الرحمٰن بن مہدی
اسحاق بن عیسیٰ
لیث بن سعد
بشر بن بکر
سفیان ثوری
شعبہ، اوزاعی، عمر و بن الحارث المصری
(مراجع: تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، ذیل الکواکب النیرات وغیرہ)

زیرِ بحث روایت کے راوی:
حجاج (شاید ابن محمد الاعور یا ابن سلیمان الرعینی)
حسن بن موسیٰ الاشیب
ابو صالح الحرانی (عبد الغفار بن داود)
ان تینوں راویوں کا سماع قبل از اختلاط ثابت نہیں ہے، لہٰذا ان کی روایت ضعیف ہے۔

دیگر روایت:

المعجم الاوسط للطبرانی (ج8 ص64 حدیث 7126):
"لا خير في جماعة النساء إلا عند ميت، فإنهن إذا اجتمعن قلن وقلن”

راوی: الوازع بن نافع
متروک راوی ہے۔
اس کی روایت شواہد و متابعت میں بھی قابل قبول نہیں۔

سند پر دیگر ائمہ کی رائے:

المعجم الکبیر للطبرانی (ج12 ص317 حدیث 1228):
راوی الوازع بن نافع ہے۔
اس کا شاگرد مغیرہ بن سقلاب ضعیف راوی ہے۔
موسیٰ بن ایوب صاحبِ خبر منکر ہے۔
سند مردود ہے۔

عورتوں کی جماعت کی مشروعیت پر صحیح احادیث

1. سنن ابی داؤد (ح 592)
"وأمرھا أن توم أھل دارھا”
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔
ابن خزیمہ (1676) اور ابن جارود (333) نے اسے صحیح قرار دیا۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا۔
محمد بن علی النیموی (آثار السنن: 513) نے بھی حسن الاسناد کہا۔

راویوں کی تحقیق:
عبد الرحمٰن بن خلاد الانصاری
ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا۔
ابن خزیمہ و ابن الجارود کے نزدیک ثقہ ہیں۔

ولید بن عبد اللہ بن جمیع
صحیح مسلم کے راوی
جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ

محمد بن فضیل بن غزوان
کتب ستہ کے راوی
موثق عند الجمہور

الحسن بن حماد المصری
صدوق راوی
(تقریب التہذیب ص69)

2. مصنف عبد الرزاق (5086) اور السنن الکبری للبیہقی (3/131)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں کی امامت کی۔
اس کی سند حسن ہے۔
سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کی۔

3. مصنف عبد الرزاق (5082)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کے درمیان کھڑے ہوکر نماز پڑھائی۔
سند صحیح ہے۔
سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ دونوں نے متابعت کی ہے۔

باطل روایت کے مقابلے میں صحیح احادیث

روایت "لا خیر فی جماعة النساء” ضعیف بلکہ بعض اسناد میں متروک راوی موجود ہے۔
اس کے مقابلے میں صحیح اسناد سے عورتوں کی جماعت کا ثبوت موجود ہے۔

ضعیف روایت سے استدلال کا رد

اعلاء السنن (ج4 ص243 حدیث 1220) میں ظفر احمد تھانوی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:
"لا توم المرأة”
(عورت امامت نہ کرائے)

یہ روایت کئی وجوہات سے قابل رد ہے:
◈ مدونہ (کتاب سحنون) کی سند متصل و معتبر نہیں۔
◈ مولیٰ بنی ہاشم کا حال مجہول ہے۔
◈ ابن ابی ذئب کے تمام شیوخ کو ثقات کہنا غلط ہے۔
◈ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سند متصل نہیں۔

خلاصہ

"لا خیر فی جماعة النساء” جیسی روایتیں ضعیف یا باطل الاسناد ہیں۔
عورتوں کی جماعت کے جواز پر صحیح اور حسن احادیث موجود ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو امامت کی اجازت دی۔
صحابیات نے بھی عملاً امامت کی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1