عوام میں کتب حدیث کی فہم اور فتنوں کا سدباب
تحریر مولانا طلحہ السیف

صحیحین اور دیگر کتب حدیث کے مقاصد

اہل علم کے لیے یہ واضح ہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن، اور دیگر مفصل کتبِ حدیث عوام کے لیے مرتب نہیں کی گئیں تھیں۔ یہ کتب اصول حدیث کے مختلف مقاصد کے تحت محدثین نے ترتیب دیں۔

◄ سند کی مضبوطی: کچھ کتب میں سند کی مضبوطی پر زیادہ توجہ دی گئی، جیسے صحیح بخاری۔
◄ متون کی تفصیل: بعض کتب میں متون کو مکمل رکھنے کا اہتمام کیا گیا۔
◄ روایات کی جمع: کچھ کتابوں میں ہر طرح کی روایت کو جمع کیا گیا، چاہے سند سخت شرائط پر پوری نہ اترے۔

صحیح بخاری اور دیگر کتب کی خصوصیات

صحیح بخاری کی انفرادیت:

◈ صحیح بخاری کو "اصح الکتب” کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سند کے معیار کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن یہی سختی اس کتاب کو عام لوگوں اور بعض علماء کے لیے بھی مشکل بنا دیتی ہے۔
◈ امام بخاریؒ صرف حدیث نقل نہیں کرتے بلکہ ان سے مستنبط مسائل کو بھی بیان کرتے ہیں۔
◈ وہ پہلے مسئلہ بیان کرتے ہیں اور پھر اس کے متعلق حدیث کا وہ حصہ ذکر کرتے ہیں جو مسئلہ کی وضاحت کے لیے ضروری ہو۔
◈ بعض اوقات حدیث کا مکمل متن ذکر نہیں کرتے، بلکہ صرف مختصر حصہ نقل کرتے ہیں۔

عوامی تفہیم میں مشکلات

◄ ترتیب کی عدم سمجھ: بخاری کی ترتیب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔
مثال: ایک شخص نے فیس بک پر نبی ﷺ کے حضرت جونیہ سے نکاح کے متعلق حدیث سے غلط نتائج اخذ کیے۔
امام بخاریؒ نے واقعہ کو مکمل نقل کرنے کے بجائے اپنے قائم کردہ باب کے مطابق حدیث کے خاص حصے کو ذکر کیا، جسے غلط طور پر مکمل واقعہ سمجھ لیا گیا۔

محدثین کے طریقے اور عوام کی رہنمائی

محدثین کی تقسیمِ عمل

◈ محدثین نے مختلف مقاصد کے لیے حدیث کے مجموعات تیار کیے:
◄ متون کی تفصیل: کچھ محدثین نے مکمل متون نقل کیے۔
◄ سند اور اطراف پر توجہ: بعض نے اطراف و متابعات پر کام کیا۔
◄ روایات کی بلا شرط جمع: کسی نے ہر قسم کی روایات کو شامل کیا۔

امام مسلمؒ کا وضاحتی اصول

امام مسلمؒ نے مقدمہ مسلم میں وضاحت کی کہ حدیث کے مجموعات کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں:
◈ بعض مجموعات صرف سند محفوظ کرنے کے لیے ہیں۔
◈ کچھ متون کے لیے ہیں۔
◈ کچھ میں تمام روایات جمع کی گئی ہیں۔
راسخین فی العلم: جو علماء اصول حدیث سے گہری واقفیت رکھتے ہیں، وہ ہر طرح کے مجموعات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
عوام اور عام علماء: وہ صرف ان مجموعات سے استفادہ کریں جو صحیح ہوں، کیونکہ ان میں گمراہی کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

عوام کے لیے حدیث کی کتب کا مقصد

◈ عوام کے لیے محدثین نے صرف وہ احادیث جمع کیں جو ترغیب و ترہیب اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل تھیں۔
◈ احکام سے متعلق احادیث کو علماء نے مسائل کی شکل میں مرتب کیا تاکہ عوام کو براہ راست پیچیدہ مسائل میں الجھانے کے بجائے آسانی سے دین سکھایا جا سکے۔

علماء کا اعترافِ فضیلت

محدثین نے خود علماء فقہاء کی خدمات کا اعتراف کیا:
"ہماری مثال پنساری کی ہے اور آپ طبیب ہیں۔”
یہ بیان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ محدثین کا کام احادیث کو جمع کرنا تھا، جبکہ فقہاء نے ان احادیث سے عملی مسائل اخذ کیے۔

حدیث بیان کرنے کا اصول اور فتنوں کی وجوہات

احادیث بیان کرنے کے اصول

◈ امام بخاریؒ نے حضرت علیؓ کا قول نقل کیا کہ:
"لوگوں کے سامنے وہی حدیث بیان کرو جو ان کے معروفات و مسلمات کے دائرے میں ہو۔”
◈ امام مسلمؒ نے مقدمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول بیان کیا:
"اگر تم لوگوں کے سامنے ایسی حدیث بیان کرو گے جسے ان کی عقل نہ پہنچ سکے، تو یہ ان کے لیے فتنہ بن جائے گی۔”

عوام میں حدیث کے فہم کی کمی

◈ جب تک احادیث کا فہم علماء تک محدود رہا، عوام کو ان سے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں تھا۔
◈ آج عوام کو پوری کتب حدیث کے تراجم دے دیے گئے، جنہیں وہ نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کے اختلافات کو حل کر سکتے ہیں۔
◈ ناسخ و منسوخ اور تعارض و تطبیق جیسے مسائل کو سمجھے بغیر عوام میں کنفیوژن پیدا ہو گیا۔

فتنہ انکار حدیث کا آغاز

◈ تعلیم یافتہ افراد نے احادیث کو اپنی ناقص عقل سے سمجھنا شروع کیا۔
◈ بعض نے کچھ احادیث کو خلاف عقل یا قرآن کے خلاف سمجھ کر انکار کیا، اور یہ سلسلہ مکمل انکار حدیث تک جا پہنچا۔
◈ ایسے افراد نہ اصول حدیث سے واقف تھے، نہ عربی زبان اور نہ عرب معاشرت سے۔

فیسبک اور عوامی فتنہ

◈ فیسبک جیسے پلیٹ فارمز نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا۔
◈ عوام اور ناسمجھ افراد حدیث کے پیچیدہ مسائل پر بحث کرنے لگے۔
◈ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی طب یا سائنس کی باریکیوں پر بغیر بنیادی تعلیم کے بحث کرے۔

حل اور اصلاح کی تجاویز

علم کے ضابطے

◈ عوام کے لیے صرف بنیادی مسائل اور اخلاقیات پر مبنی احادیث پیش کی جائیں۔
◈ دقیق مسائل پر رائے دینے سے پہلے اصول حدیث، ناسخ و منسوخ اور دیگر مبادیات سیکھنی چاہئیں۔

علماء اور عوام کا کردار

◈ علماء کو چاہیے کہ وہ علم کو مخاطبین کی عقل اور فہم کے مطابق بیان کریں۔
◈ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے فہم سے بالاتر مسائل پر خود رائے قائم کرنے کے بجائے علماء کی رہنمائی حاصل کریں۔

فیسبک پر ضابطہ

◈ فیسبک کو علم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ضابطے کے ساتھ۔
◈ عوام اپنی ضرورت کے مسائل علماء سے پوچھیں۔
◈ علماء اپنے دائرے میں رہ کر علمی مباحث کریں۔

امت کے لیے نقصان

◈ جو لوگ دین کے بنیادی مسائل سے بھی لاعلم ہیں، ان کے سامنے متنازعہ مسائل رکھنا انہیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
◈ اگر کوئی واقعی علم حدیث کے دقیق مسائل پر بات کرنا چاہتا ہے تو اسے علم کے اصول سیکھنے ہوں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے