عمریٰ کا بیان
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْعَاشِرُ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَى لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ } . وَفِي لَفْظٍ { مَنْ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ . فَإِنَّهَا لِلَّذِي أُعْطِيَهَا . لَا تَرْجِعُ إلَى الَّذِي أَعْطَاهَا ; لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ } [ ص: 541] وَقَالَ جَابِرٌ { إنَّمَا الْعُمْرَى الَّتِي أَجَازَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنْ يَقُولَ: هِيَ لَكَ وَلِعَقِبِكَ ، فَأَمَّا إذَا قَالَ: هِيَ لَك مَا عِشْتَ: فَإِنَّهَا تَرْجِعُ إلَى صَاحِبِهَا } .
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمریٰ کا اس شخص کے حق میں فیصلہ کیا جس کو وہ شے دی گئی ہو۔
ایک روایت میں ہے: جس کے لیے کوئی چیز عمریٰ کر دی جائے تو وہ اس کے اور اس کے پیچھے آنے والوں (یعنی اس کی اولاد ) کے لیے ہے، کیونکہ یہ اسی کے لیے ہوتی ہے جس کو دی جاتی ہے، جس نے یہ دی ہے، اس لیے کہ اس نے تو ایسی چیز عطا کر دی ہے جس میں وراثت کا حکم لگتا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمریٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری ہو جانے والی قرار دیا ہے کہ وہ کہے: یہ تیرے اور تیری اولاد کے لیے ہے، اور اگر وہ یہ کہے کہ جب تک تو زندہ رہے گا یہ تیری ہے ، تو اس حالت میں (اس کی موت کے بعد) وہ چیز اپنے مالک کی طرف لوٹ آئے گی۔
شرح المفردات:
العمرى: یہ عمر یعنی انسان کی زندگی سے مشتق ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ اپنی زندگی ہی میں کسی شخص کو زمین، مکان یا کوئی چیز ہبہ کرتے اور کہتے کہ جب تک تیری زندگی ہے تب تک میں نے یہ تجھے ہبہ کر دی ۔
شرح الحديث:
عمریٰ کرنے والا اگر تو مطلقاً کسی چیز کو کسی کے لیے عمریٰ کر دے تو وہ نہ صرف زندگی بھر کے لیے اس کی ہو جائے گی بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ واپس نہیں ہوگی بلکہ اس کی اولاد کی ملکیت میں آجائے گی، کیونکہ تب اس کا حکم وہی ہوگا جو مال وراثت کا ہوتا ہے، لیکن اگر وہ یہ شرط لگا دے کہ یہ چیز تب تک تیری ہے جب تک تو زندہ ہے، تو اس صورت میں اس شخص کے مرنے کے بعد وہ چیز واپس اسی کی ملکیت میں چلی جائے گی جس نے عمریٰ کی ہوگی ۔
(290) صحيح مسلم، كتاب الهبات ، باب العمري ، ح: 1625
291 – وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ { أَمْسِكُوا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ، وَلَا تُفْسِدُوهَا فَإِنَّهُ مَنْ أَعْمَرَ عُمْرَى فَهِيَ لِلَّذِي أُعْمِرَهَا: حَيًّا ، وَمَيِّتًا ، وَلِعَقِبِهِ }
مسلم کے الفاظ میں ہے: اپنے مالوں کو اپنے پاس ہی رکھو اور اسے ضائع نہ کرو، سو یقیناً جس نے عمری کیا تو وہ چیز اس کی ہو جائے گی جس کے لیے عمریٰ کیا گیا ، زندہ ہو (تو اس کی اپنی ہے) مر جائے تو اس کے ورثاء کے لیے ہے ۔
شرح المفردات:
لعقبه: پچھلوں سے مراد اس کی اولاد ہے۔
شرح الحديث:
اس حدیث میں احتیاط کی ترغیب دی گئی ہے کہ محض جذبات میں اپنے اموال ہاتھ سے نہ گنواؤ، جی وقتی سے جوش میں آکر کسی کو کوئی چیز عطیہ کر دی اور بعد میں پچھتاوا ہو، کیونکہ عمریٰ کے بارے میں حکم یہی ہے کہ جو چیز کسی کو عمریٰ کر دی گئی تو پھر وہ دوبارہ مالک کو واپس نہیں مل سکتی، بلکہ جسے وہ عمریٰ کر دی گئی ہے وہ اسی کی ہو جاتی ہے، حتی کہ اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی اولاد کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔
(291) صحيح مسلم، كتاب الهبات، باب العمري ، ح: 1625

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے