حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس امت سے پانچ یا سات سال قبل اللہ کی عبادت کی تھی
حبتہ بن جوین کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت اللہ کی عبادت کی تھی۔ جب اس امت کے کسی فرد نے یہ عبادت نہ کی تھی۔ اور تقریباً عبادت پانچ یا سات سال جاری رہی۔
یہ عبادت اسی قسم کی ہو گی جیسے ملا باقر مجلسی نے جلاالعیون میں تحریر کیا ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیدائش کے بعد لے کر نکلیں اور گھر پہنچیں تو حضور کی انگلیاں چوسیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس طرح علم کے سمندر چوستے رہے اور تیسرے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:
«قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ⋆ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ»
حالانکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نبوت نہ ملی تھی۔ لیکن سورۃ مومنون میں مومنین کا ذکر ہے اس لیے یہ آیات حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پیدائش کے تیسرے روز نازل ہو گئی تھیں۔
یہ روایات اسی وقت عقل میں آ سکتی ہیں جب آپ بخاری کے بجائے جالاالعیون پر ایمان لائیں۔ ورنہ تشیع نام ہے اس امر کا کہ ہر خلاف عقل بات پر ایمان لے آؤ۔ اور سبحان اللہ کے نعرے بلند کرو۔
یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے وضع کی گئی۔ اس کا پہلا راوی جو اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کر رہا ہے اس کا نام حبتہ بن جوین ہے۔
حبتہ بن جوین:
ابن جوزی لکھتے ہیں یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے وضع کی گئی ہے۔ جہاں تک حبہ کا تعلق ہے۔ تو وہ ابک حبہ برابر نہیں کیونکہ وہ کذاب ہے۔
یحیی کہتے ہیں: اس کی حدیث کچھ نہیں۔
سعدی کا بیان ہے کہ یہ غیر ثقہ ہے۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ غالی قسم کا شیعہ ہے،
اور حدیث میں واہی ہے۔ [تقريب: 148/1۔ الجرح والتعديل: 1130/3۔ تهذيب الكمال: 220/1]
اجلح:
امام احمد فرماتے ہیں اس نے کئی منکر روایات نقل کیں۔
ابو حاتم رازی کہتے ہیں اس کی
حدیث حجت نہیں۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ اجلح تو یہ بھی نہیں جانتاکہ یہ کیا کہ رہا ہے۔
ابن جوزی لکھتے ہیں: یہ روایات ان احادیث کے خلاف ہیں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زید بن حارثہ کے تقدیم اسلام کے بارے میں مروی ہیں۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ سات سال تک عبادت کرتے رہے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال اسلام لائے اور اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چالیسواں تھا۔ [الموضوعات: 342/1]
امام ابن الجوزی سینوں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ورنہ بات مومنین کی ہو رہی ہے منافقین کی نہیں ہو رہی ہے حتی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صرف پانچ افراد اسلام لائے تھے۔ باقی سب منافق تھے۔ اور ان پانچوں افراد میں حسن و حسین اور فاطمہ رضی اللہ عنہم بھی داخل نہ تھیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان افراد کو کیسے داخل کیا گیا۔
امام ذہبی تحریر فرماتے ہیں یہ حبتہ بن جوین قبیلہ عرینہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ اس کا تعلق غالی شیعوں سے ہے۔ اس نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین میں اسی بدری تھے۔
ذہبی لکھتے ہیں: یہ محال ہے۔ [ميزان الاعتدال: 188/2]
جوزجانی کا بیان ہے کہ یہ ثقہ نہیں اس سے سلمہ بن کہیل اور حکم اور ایک جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔
سلیمان بن معبد نے یحیی بن معین سے نقل کیا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
نسائی کا بیان ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اور ابن خراش کا بیان ہے کہ یہ کچھ نہیں۔
احمد بن عبد اللہ العجلی کا بیان ہے کہ میں نے اس حبہ کو دیکھا ہے۔ اس کی زبان پر سبحان
اللہ اور الحمد للہ جاری رہتا۔ بجز اس کے وہ نماز پڑھتا یا حدیث بیان کرتا۔ 96ھ میں اس کا انتقال ہوا۔
اس وجہ سے یہ کہانی اجلح بن عبد اللہ ابو حجیتہ الکندی الکوفی نے نقل کی ہے۔
امام احمد
فرماتے ہیں: یہ فطر کے قریب ہے۔
ابو حاتم کہتے ہیں: قوی نہیں۔
نسائی کا بیان ہے کہ ضعیف ہے بری رائے رکھتا تھا۔
قطان کہتے ہیں: میرے دل میں اس کی جانب سے شک ہے۔
ابن عدی لکھتے ہیں: شیعہ ہے سچا ہے لیکن جوزجانی کا بیان ہے کہ یہ اجلح افتراء باز ہے، 145ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ [ميزان الاعتدال: 209/1۔ تهذيب الكمال: 71/1۔ تقريب: 49/1۔ الكاشف: 99/1۔ الجرح والتعديل: 347/2۔ موضوعات ابن جوزي: 237/2۔ طبقات ابن سعد: 327/7]