علیحدہ مسجد بنانے اور جماعت الگ کرنے کا شرعی حکم
ماخذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

مسجد ضرار کا شرعی حکم

اسلامی شریعت کے مطابق، اگر مسجد نئی مسجد صرف نفسانی خواہشات، دشمنی یا فتنہ و فساد کے مقصد سے بنائی جائے، تو ایسی مسجد کو مسجد ضرار کا حکم دیا جاتا ہے۔ مسجد ضرار وہ مسجد ہے جسے صرف مسلمانوں کے درمیان تفریق اور ضرر پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہو، اور ایسی مسجد میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

➊ قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

"اس (مسجد ضرار) میں کبھی نہ کھڑے ہونا؛ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، اس میں کھڑا ہونا زیادہ لائق ہے”(سورۃ التوبہ: 108)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مسجد ضرار وہ مسجد ہے جو محض فتنہ، تفریق اور دیگر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی جائے، اور اللہ تعالیٰ نے ایسی مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

➋ صحابہ کرام کا عمل

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب اسلامی فتوحات کے بعد شہر آباد ہوئے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں کو ایک ہی مسجد میں نماز ادا کرنی چاہیے اور شہر میں ایسی دو مسجدیں نہ بنائی جائیں جو ایک دوسرے کے خلاف بنائی گئی ہوں یا کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے ہوں۔

(تفسیر معالم التنزیل)

➌ فخر، ریا اور نفسانیت کی نیت سے مسجد بنانا

تفسیر مدارک میں بیان کیا گیا ہے کہ:

"جو مسجد فخر، ریا، شہرت یا اللہ کی رضا کے علاوہ کسی اور نیت سے بنائی جائے، وہ مسجد ضرار میں شامل ہوتی ہے”۔

خلاصہ

➊ مسجد ضرار وہ مسجد ہے جو نفسانی خواہشات، عداوت یا پرانی مسجد کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی جائے۔

➋ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔

➌ صحابہ کرام کے دور میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ مسجدیں مسلمانوں میں تفریق کا سبب نہ بنیں۔

➍ لہٰذا، جو لوگ فتنہ انگیزی یا اختلاف کی وجہ سے نئی مسجد بنا کر الگ جماعت اور جمعہ کی نماز ادا کر رہے ہیں، ان کا عمل شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔

➎ اللہ تعالیٰ ہمیں نفاق اور فتنہ سے بچائے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم رکھے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1