امام ذھبیؒ کی کتاب "سیر اعلام النبلاء” میں ابو الحسن الراوندی کا ذکر
امام ذھبیؒ کی کتاب "سیر اعلام النبلاء” میں ابو الحسن الراوندی کا ذکر ایک نہایت اہم اور قابل غور موضوع ہے، جسے امام صاحب نے نہایت عمدگی سے پیش کیا۔ الراوندی، جو ایک ذہین فلسفی تھا، ابتدا میں عقلیت پسندی اور پھر الحاد کی راہ پر چل پڑا۔ امام ذھبیؒ نے اس کی زندگی کے واقعات اور نظریات کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد ایک نکتہ اخذ کیا کہ علم کا ہونا ضروری ہے، مگر اگر علم کا ساتھ عقل نہ دے اور وہ ایمان سے خالی ہو، تو وہ اللہ کے نزدیک ملعون ہوتا ہے۔ جبکہ تقویٰ، جو ذہانت اور علم کے بغیر بھی مقبول ہو سکتا ہے، اللہ کے نزدیک بلند مقام رکھتا ہے۔
اسلام میں علم اور استدلال کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی غور و فکر کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہے۔ تاہم، تقویٰ اور سادگی پر مبنی ایمان کو علم سے زیادہ قدر دی جاتی ہے اگر وہ انسان کو رب کی پہچان کی طرف لے جائے۔ امام ذھبیؒ کی یہ بات ہمارے لیے نہایت اہم سبق رکھتی ہے کہ علم کا ہونا کافی نہیں، بلکہ وہ علم جو انسان کو اللہ کے قریب لے جائے وہی معتبر اور قابل قبول ہے۔
جدید دور کا فتنہ اور مبلغین کے مسائل
آج کے دور میں، خاص طور پر مغربی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کے لیے یہ مسئلہ نہایت حساس اور سنگین بن چکا ہے۔ بہت سے مبلغین مغربی معاشروں میں کام کر رہے ہیں جہاں ان کے سامنے مختلف نظریات اور سوالات رکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی مبلغین نے دینی تعلیمات کو کسی مستند عالم دین سے حاصل نہیں کیا، اور نتیجتاً وہ اپنے ذہن اور عقل کے سہارے اسلام کی تشریح اور تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا کے دباؤ، عوامی رائے اور غیر مسلم معاشروں کے اثرات سے متاثر ہو کر ایسی باتیں کر بیٹھتے ہیں جو اہل سلف کی رائے سے مختلف اور بعض اوقات ملحدانہ ہوتی ہیں۔
اس فتنے سے بچنے کا حل
اس فتنے کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے، مگر سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ اسے فتنہ سمجھا جائے۔ جب ہم اپنی بصیرت کھو بیٹھیں اور خود فریبی میں مبتلا ہو جائیں، تو ہم بہت سے خطرناک راستے اختیار کر سکتے ہیں، جیسے وحدتِ ادیان کی بات کرنا، حجاب کی فرضیت سے انکار کرنا، یا ہم جنس پرستی جیسے موضوعات پر ملحدانہ رائے دینا۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ مبلغین خود کو ہمیشہ مستند علماء کے ساتھ منسلک رکھیں اور اپنی دینی رہنمائی کے لیے ان پر انحصار کریں۔ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دینی معاملات میں ہمیشہ سینئر علماء سے رجوع کریں تاکہ وہ صراطِ مستقیم پر قائم رہیں اور فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔
دعا اور استقامت
اس وقت ہمیں اللہ سے دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے اور ہمارے دلوں کو سیدھے راستے پر قائم رکھے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ سے گڑگڑا کر مانگیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے داعیوں کو اس فتنے سے بچائے اور ہمیں عوام کے لیے فتنہ نہ بنائے۔