نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کے عقیدے کا رد
بعض افراد نے اہل سنت و الجماعت کے قرآن و سنت سے ہم آہنگ عقائد کو ترک کرکے یہ نظریہ بنا لیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اس عقیدے کے خلاف قرآن و حدیث سے چند دلائل پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ قارئین تعصب سے پاک ہو کر حقیقت کو جان سکیں۔
قرآنی دلائل
1. حضرت مریم کا واقعہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور (اے نبی!) آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ قلم ڈال کر فیصلہ کر رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا، اور نہ ہی آپ وہاں موجود تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔”
(آل عمران 3: 44)
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعے میں موجود نہ تھے، لیکن اللہ نے آپ کو اس واقعے کی خبر دی جیسے آپ وہاں موجود ہوتے۔
2. حضرت موسیٰ کی وحی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور (اے نبی!) آپ طور کے مغرب میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو حکم دیا، نہ ہی آپ ان گواہوں میں شامل تھے۔”
(القصص 28: 44)
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعے میں موجود نہ تھے، بلکہ اللہ نے آپ کو وحی کے ذریعے اس کی اطلاع دی۔
3. طور پر ندائے الٰہی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور نہ آپ طور کے پاس تھے جب ہم نے پکارا تھا، بلکہ یہ آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو خبردار کریں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا۔”
(القصص 28: 46)
4. اہل مدین کے ساتھ موجودگی
اللہ فرماتا ہے:
"اور (اے نبی!) نہ آپ مدین کے لوگوں کے درمیان تھے کہ ان کے سامنے ہماری آیات پڑھتے، بلکہ ہم ہی رسولوں کو بھیجنے والے ہیں۔”
(القصص 28: 45)
5. فرشتوں کی بات چیت کا علم
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"مجھے بلند قدر فرشتوں کی بات چیت کا کوئی علم نہیں تھا جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔”
(ص 38: 69-70)
6. یوسف کے بھائیوں کی سازش
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"یہ غیب کی خبروں میں سے ہیں جنہیں ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہیں تھے جب انہوں نے اپنی بات طے کی اور فریب کرنے لگے۔”
(یوسف 12: 102)
ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف کے بھائیوں کے پاس نہ تھے جب وہ سازش کر رہے تھے۔
حدیثی دلائل
1. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن انہیں مدینہ کے ایک راستے میں دیکھا اور دریافت کیا:
"ابوہریرہ! آپ کہاں تھے؟”
(صحیح مسلم)
2. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات دیر سے واپس آئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
"تم کہاں تھیں؟”
(سنن ابن ماجہ)
3. واقعہ معراج
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک رات آپ کو تلاش کیا اور کہا:
"اے اللہ کے رسول! آپ کہاں تھے؟”
(المعجم الکبیر)
4. غزوہ احد کا واقعہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے دوران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"سعد! آپ آج کہاں تھے؟”
(المستدرک)
نتیجہ
ان تمام قرآنی آیات اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ درست نہیں۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ موجود ہوتے، تو صحابہ کرام اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسرے سے "کہاں تھے؟” پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟
یہ لوگ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہی علم غیب کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن جو کہیں موجود ہو، وہاں کی بات اس کے لیے غیب کیسے ہو سکتی ہے؟
اپیل
ہماری اپیل ہے کہ آپ اس باطل عقیدے کو ترک کر کے قرآن و سنت کے مطابق سلف صالحین کے عقیدے کو اپنائیں تاکہ حق کی مخالفت لازم نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کی سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!