اٹھارویں صدی کے ملحد فلسفیوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مذہب کو رد کر دیا تھا کہ وہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کی بنیاد انسانی عقل پر رکھیں گے، نہ کہ وحی پر۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام تصورات کی عقلی تشریح پیش کریں گے، جو کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی، اس لیے دنیا کے تمام انسان اسے ماننے پر مجبور ہوں گے۔
لیکن پھر کیا ہوا؟ دو سو سال کی فلسفیانہ کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ: ”انسان اپنے کلیات کے ذریعے سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کو جان ہی نہیں سکتا۔”
اس مقام پر، اصولی طور پر انسان کو اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عاجزی سے جھک جانا چاہیے تھا کیونکہ اس نے اپنے خالق کے سامنے سرکشی کر کے خود خدا بننے کا دعویٰ کیا تھا، اور اس میں پوری طرح ناکام ہو چکا تھا۔
لیکن یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ اس ناکامی، جو اس کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی، کو اس نے اپنے رب کی نشانی سمجھنے کی بجائے اپنی سرکشی کو مزید بڑھانے کا ذریعہ بنا لیا۔ اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے اب وہ یہ کہنے لگا کہ سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن جیسی چیزیں حقیقت میں وجود نہیں رکھتیں، بلکہ یہ سب اضافی اور بے معنی تصورات ہیں۔ آج، وہ اپنے اس دعوے کو اپنی ’تلاش‘ قرار دیتا ہے، حالانکہ دراصل یہ اس کی ’شکست‘ (retreat) کا باغیانہ اعتراف ہے اور بس۔
لیکن اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موت اٹل ہے اور اپنے رب کے حضور اس کی حاضری کا وقت بہت قریب ہے۔ ہاں، توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے، اور اس کا رب بڑا رحیم ہے۔