عقل کی حدود اور وحی الٰہی کی رہنمائی

عقل کی محدودیت

آج کل ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا رجحان ہے، لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا عالمی اصول یا فارمولا موجود نہیں ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے قابل قبول ہو اور اچھائی یا برائی کا معیار بن سکے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ خالص عقل پر انحصار نے کئی مرتبہ انسان کو دھوکے دیے ہیں اور تباہی کی طرف دھکیلا ہے۔

تاریخ کی مثالیں

  • باطنی فرقے کا فلسفہ: آٹھ سو سال قبل عبید اللہ بن حسن قیروانی نامی شخص نے اپنی عقل کی بنیاد پر ایک فرقے کو ایسی اخلاقی گمراہی کی تعلیم دی جس میں بھائی بہن کے تعلقات کو بھی جائز قرار دیا گیا۔
    (ماخذ: الفرق بین الفرق للبغدادی، بیان مذاہب الباطنیہ للدیلمی)
  • ایٹم بم کی تباہی کا جواز: ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کو ایک کروڑ انسانی جانیں بچانے کا ذریعہ قرار دیا گیا، جبکہ حقیقت میں یہ عقل کے نام پر ظلم کا جواز فراہم کرنا تھا۔
    (ماخذ: انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا)
  • ہم جنس پرستی کا قانونی جواز: برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی کے حق میں بل پاس ہونے کی دلیل یہ دی گئی کہ انسان کی ذاتی زندگی میں قانون کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، حالانکہ اس کے اخلاقی نقصانات واضح ہیں۔
    (ماخذ: دی لیگل تھیوری، فریڈمین)

عقل اور وحی کا فرق

عقل ایک محدود ذریعہ علم ہے جو صرف مخصوص دائرے میں ہی کارآمد ہے۔ علامہ ابن خلدون کے مطابق عقل کی مثال ایسے کانٹے کی ہے جو سونا تولنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اگر اس سے پہاڑ تولنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ جائے گا۔
(ماخذ: مقدمہ ابن خلدون، بحث علم کلام)

اسلام کا نظریہ

اسلام عقل کے استعمال کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے حدود متعین کرتا ہے۔ جہاں عقل ناکام ہوجاتی ہے، وہاں وحی الٰہی انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے کہ حق اور ناحق کا فیصلہ صرف وحی کے ذریعے ممکن ہے:

"ہم نے آپ کے پاس یہ کتاب اتاری جس سے واقع کے موافق آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔”
(النساء: 105)

آزادی فکر اور اس کی حدود

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک ریسرچ اسکالر کے ساتھ مکالمے میں مفتی تقی عثمانی نے یہ نکتہ اٹھایا کہ آزادی فکر کو بالکل مطلق نہیں رکھا جاسکتا۔ اس پر قیدیں لگانے کے لیے ایک جامع اور عالمگیر معیار کی ضرورت ہے، جو صرف وحی الٰہی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔

جدید سائنس اور قرآن

قرآن سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے فارمولے فراہم نہیں کرتا کیونکہ یہ دائرہ انسانی عقل اور تجربے کا ہے۔ قرآن وہاں رہنمائی دیتا ہے جہاں عقل کا دائرہ ختم ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے