عقل کی حدود اور الٰہی احکام کی حکمت
تحریر: ابن جمال

عصر حاضر میں نوجوانوں کی دین میں دلچسپی میں اضافہ

نوجوان نہ صرف دینی احکام پر عمل کرتے ہیں بلکہ دینی معاملات میں گہری دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔ کالج کے طلبہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نماز اور دیگر عبادات کی پابندی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ خوش آئند بات ہے کہ بہت سے نوجوان اپنے لباس اور وضع قطع میں بھی مذہبی رنگ کو پسند کرتے ہیں اور اسے اپناتے ہیں۔

عقل و مذہب کے درمیان توازن

تاہم، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام کے تمام احکام عقل کی بنیاد پر ہیں، اور وہ ہر حکم کی حکمت اور وجہ جاننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک عقل ہی مذہب کی قبولیت کا معیار بن چکی ہے۔ اگر کوئی دینی حکم ان کی عقل میں سمجھ میں آ جائے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں، ورنہ نہیں۔

عقل پسندی اور اسلام کا موقف

اسلام ایک دین فطرت ہے جو انسانی عقل سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام میں عقل کا استعمال پسندیدہ ہے، لیکن عقل پرستی (ہر حکم کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا) کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اسلامی شریعت میں ظاہری احکام کے متعلق عقل کے استعمال کی ممانعت نہیں، بلکہ قرآن و سنت کی فقہی تشریحات میں عقل کا استعمال ہوا ہے۔ تاہم، وہ احکام جو وحی سے متعلق ہیں اور جنہیں سمجھنے کے لیے عقل کی محدودیت مانع ہے، وہاں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ عقل ہمیشہ مشاہدے کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے، اور وحی کی بنیاد پر آنے والے احکام مشاہدے کی قید سے آزاد ہیں۔

حکم کو ماننے کی ضرورت

یہ ایک فہم پذیر بات ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی عقل مختلف ہوتی ہے، اور اگر کسی کو کسی قانون کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ ملکی قوانین میں بھی اگر کوئی شہری یہ کہہ کر قانون ماننے سے انکار کرے کہ اسے اس کی حکمت سمجھ میں نہیں آتی، تو اسے بے وقوف کہا جائے گا۔ لیکن اسی رویے کو مذہب کے معاملے میں برداشت کیا جاتا ہے، اور مذہبی احکام کو ماننے والوں پر تنقید کی جاتی ہے۔

اللہ کے احکام کی حکمت

یہ ایک دوہری سوچ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو تو سمجھ میں نہ آنے کے باوجود مان لیا جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ گویا، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے احکام وہی ہوں جو ان کی عقل میں آئیں۔ یہ رویہ عقل کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی گستاخی بھی ہے۔

ناقص عقل اور الٰہی حکمت

انسان اپنی محدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہ نہیں سوچتا کہ اگر کوئی حکمت اس کی سمجھ میں نہ آئے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ حکم غلط ہو۔ ایک انسان کا علم محدود ہوتا ہے، اور اسی محدودیت میں وہ الٰہی حکمت کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتا۔
ابن خلدون نے مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونا چاندی تولا جا سکتا ہے، اس میں پہاڑ نہیں تولا جا سکتا۔ اسی طرح انسان کی عقل کی بھی اپنی حدود ہیں۔

عقل کی حدود کا اعتراف

اس موضوع پر ممتاز مفتی کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے، جس میں ایک غیر ملکی کرنل نے ڈاکٹر عفت سے سور کا گوشت حرام ہونے کی وجہ پوچھی۔ ڈاکٹر عفت نے جواب دیا کہ یہ ایک حکم ہے اور میرا کام اسے ماننا ہے، اس کی وجہ جاننا ضروری نہیں۔ کرنل نے کہا کہ بغیر سمجھے حکم ماننے کا کیا مقصد؟ ڈاکٹر عفت نے جواب دیا کہ کرنل صاحب، آپ ایک فوجی افسر ہیں، آپ تو حکم کی تعمیل کے اصول کو سمجھتے ہوں گے۔

محدود عقل کے دائرہ کار کا مسئلہ

ہماری عقل روز مرہ کی چیزوں کا مکمل احاطہ نہیں کر پاتی، اور یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو چیز ہماری عقل سے ماوراء ہو، اس کے نہ سمجھنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز غیر ضروری ہے۔ جیسے انسان بجلی کا استعمال کرتا ہے مگر اس کی حقیقت سے واقف نہیں، انسانی جسم میں روح کا وجود مانتا ہے مگر اس کی حقیقت کو نہیں جانتا۔ اسی طرح اللہ کے احکام کی حکمتوں کا احاطہ بھی انسانی عقل کی رسائی سے باہر ہو سکتا ہے۔

قانون اور اس کی علت

قانون ہمیشہ علت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ حکمت پر۔ یعنی قانون کی بنیاد اس کی وجہ پر ہے، اور اگر وہ وجہ موجود ہو، تو قانون نافذ ہوتا ہے۔ مثلاً، سفر کے دوران نماز میں قصر کرنا یعنی چار رکعت کی جگہ دو رکعت پڑھنا، اس کی علت سفر ہے۔ جب سفر ہوگا تو قصر بھی ہوگا۔ اگر کوئی کہے کہ چونکہ اب سفر آسان ہوگیا ہے، اس لیے قصر ختم ہو جانا چاہیے، تو یہ غیر معقول بات ہوگی کیونکہ اس کی بنیاد حکمت پر نہیں ہے۔

خلاصہ

قرآن مجید کا انداز تخاطب ہمیشہ "یا ایھا الذین آمنوا” (اے ایمان والو) کے طور پر رہا ہے، جس کا مطلب ہے ماننے والوں سے خطاب کرنا۔ مگر بدقسمتی سے کچھ لوگ اس فرق کو بھلا کر "سمجھیں گے تو مانیں گے” کی روش پر قائم ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس بات کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مذہب میں ماننے کا تقاضا کیا گیا ہے، نہ کہ مکمل طور پر سمجھنے کا۔

لہذا، اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننا ضروری ہے، چاہے ان کی حکمت ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے۔ انسانی عقل کی حدود اور اس کی ناقص فہم کے اعتراف کے بغیر دین کی سمجھ بوجھ ناقص رہتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1