عقل کی حد، بخاریؒ کی فقہ اور جدیدیت کے اعتراضات
تحریر: غلام اصغر ساجد

عقل کی محدودیت اور زیادتی کے اثرات

انسانی مسائل کو حل کرنے کے لیے عقل کی ضرورت ناگزیر ہے، لیکن جب عقل کا حد سے زیادہ استعمال کیا جائے تو اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ یہ حد سے تجاوز کر کے ذہن کو مفلوج کر دیتی ہے، اور اس کے نتیجے میں عقل کا وجود ہی نظر نہیں آتا۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے: فرض کریں کہ ایک گیند کے ساتھ ایک ڈوری باندھی جائے، جہاں گیند مسئلے کی علامت ہے اور ڈوری عقل کی۔ جب تک ڈوری ساکن ہے، سب واضح نظر آتا ہے، لیکن جیسے ہی اسے حد سے زیادہ گھمایا جائے تو نہ گیند نظر آتی ہے اور نہ ڈوری۔ یہی حال عقل کے حد سے زیادہ استعمال کا ہے۔

جدیدیت، الحاد، اور سچائی کی تلاش

مذہب الحاد اور جدیدیت میں عقل کے بے تحاشا استعمال کو سچائی کا واحد معیار مانا جاتا ہے۔ لیکن جدیدیت کے سامنے اس وقت ایک بڑی مشکل کھڑی ہو گئی جب ایک سچائی کے جواب میں دوسری سچائی سامنے آتی رہی۔ آخر کار، مابعد جدیدیت نے اعلان کر دیا کہ دنیا میں کوئی سچائی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الہامی سچائیوں کو جدیدیت کے اصولوں سے پرکھنا زہر قاتل بن جاتا ہے۔

امام بخاریؒ کی کتاب "صحیح بخاری” پر ایک بحث

بخاری شریف: فقہ یا حدیث کی کتاب؟

قاری حنیف ڈار صاحب کے مطابق، "صحیح بخاری” حدیث کی کتاب نہیں بلکہ امام بخاریؒ کی فقہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ نے اپنی فقہ کو احادیث کے عنوانات کے ذریعے پیش کیا ہے اور اپنے موقف کے مخالف احادیث کو شامل نہیں کیا۔ تاہم، اگر یہ دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس فقہ کی پیروی کر رہے تھے؟

امام بخاریؒ کا فقہی رجحان

امام بخاریؒ کے فقہی نظریات کو مکمل طور پر شافعی یا حنفی کہنا ممکن نہیں۔ ان کی بعض آراء شافعی فقہ سے ملتی ہیں، جبکہ کئی دیگر آراء حنفی فقہ سے ہم آہنگ ہیں۔ مثلاً:

  • فیض الباری (باب چہارم) میں ان کے نظریات کی تفصیلات موجود ہیں۔
  • انہوں نے مختلف مسانید (جیسے مسند احمد بن حنبل, مسند امام ابو بکر بن ابی شیبہ) کی احادیث پر تحقیق کی، جن میں صحیح اور ضعیف احادیث دونوں شامل تھیں۔

دو متضاد روایات کی مثالیں

قاری حنیف ڈار صاحب کے اس دعوے پر کہ امام بخاریؒ نے اپنی فقہ کے مخالف کوئی روایت درج نہیں کی، یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ "صحیح بخاری” میں ایک ہی موضوع پر مختلف اور متضاد روایات بھی موجود ہیں، مثلاً:

  • صلوۃ وتر کے بارے میں ایک رکعت اور تین رکعات دونوں کے اقوال موجود ہیں۔
  • نماز استسقاء میں تحویل رداء کرنے اور نہ کرنے دونوں کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔

احادیث کی تعداد اور تحقیق کا اعتراض

عرب قرآنسٹ کی تنقید

عرب قرآنسٹ نے امام بخاریؒ پر یہ اعتراض کیا کہ انہوں نے 16 سال میں 6 لاکھ احادیث کی تحقیق کی، جو حساب کے مطابق ہر حدیث کی تحقیق کے لیے 7 منٹ کا وقت بنتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل انسانی ضروریات (نماز، کھانا، پینا وغیرہ) کو ترک کیے بغیر ممکن نہیں۔

حقیقت کا تجزیہ

یہ اعتراض ریاضیاتی کلیوں پر مبنی ہے اور عملی طور پر غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اس میں کئی اہم پہلو نظر انداز کیے گئے، مثلاً:

  • امام بخاریؒ نے مختلف راویوں سے کئی احادیث ایک ساتھ حاصل کیں، جس سے تحقیق کا وقت کم ہوا۔
  • رجال حدیث کی تعداد تقریباً 13 ہزار ہے، اور ہر راوی نے متعدد احادیث روایت کیں۔
  • امام بخاریؒ نے تحقیق کے لیے کئی سال حجاز مقدس میں قیام کیا، جہاں انہیں کئی راویوں سے ملاقات کا موقع ملا۔

نتیجہ

قاری حنیف ڈار صاحب کے دلائل اور امام بخاریؒ کے حوالے سے اعتراضات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ:

  • عقل کا حد سے زیادہ استعمال سچائی تک پہنچنے کے بجائے مزید الجھن پیدا کرتا ہے۔
  • "صحیح بخاری” کو صرف ایک فقہی کتاب کہنا درست نہیں، بلکہ یہ ایک جامع تحقیقی کام ہے جس میں امام بخاریؒ نے مختلف فقہی آراء اور اصول حدیث کو جمع کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے