عقل پر مبنی نظام کی محدودیت اور اسلامی اصولوں کی برتری

عقل پرست اور سیکولر نظریات کے حامیوں کا دعویٰ

عقل پرست اور سیکولر نظریات کے حامی عام طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہبی عقائد اپنے ماننے والوں میں شدت پسندانہ اور متشدد رویوں کو فروغ دیتے ہیں کیونکہ یہ معین، غیر متبدل اور آفاقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے بقول، مذہبی بنیادوں پر قائم معاشرتی نظام انتشار اور تنازع کا سبب بنتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سماج کو مذہب کے بجائے عقل کی بنیاد پر استوار کیا جائے۔
اس دعوے کے پیچھے یہ مفروضہ ہے کہ عقل پر مبنی نظریات مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتے۔

عقلی نظریات بھی شدت پسندی کا شکار ہیں

یہ بات قابل غور ہے کہ اگر مذکورہ بنیاد پر مذہبی عقائد کو مسترد کیا جائے تو عقلی نظریات (جیسے لبرل ازم اور سیکولرازم) کو بھی رد کرنا ہوگا، کیونکہ یہ بھی اپنی جگہ متشدد اور غیر لچکدار ثابت ہوئے ہیں۔

تاریخی شواہد:

تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے نام پر چلنے والے نظاموں نے بھی قتل و غارت، استحصال اور نسل کشی کو فروغ دیا ہے۔ مثال کے طور پر:

➊ اشتراکی روس نے "انسانیت کی بھلائی” کے نام پر لاکھوں افراد کا قتل عام کیا۔

➋ ہیومن رائٹس کے علمبردار امریکہ اور یورپ نے دیگر اقوام کو تہذیب یافتہ بنانے کے نام پر پوری قوموں کی تباہی کی۔

عقل کا جبر: ایک ناقابل حل مسئلہ

عقل پرستوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود عقل کے جبر کا شکار ہیں:

➊ ہر عقلی نظریہ، چاہے وہ لبرل ازم ہو یا مارکس ازم، اپنے مخصوص تصورِ انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔

➋ جو افراد ان نظریات کو نہیں مانتے، انہیں "غیرعقلی”، "وحشی” اور "انسانیت کے دشمن” قرار دیا جاتا ہے۔

مثالیں:

➊ لبرل سیکولر افراد اُن لوگوں کو جاہل تصور کرتے ہیں جو ہیومن رائٹس کو نہیں مانتے۔

➋ اشتراکی لوگ مادی کشمکش کے قائل نہ ہونے والوں کو عقل دشمن گردانتے ہیں۔

عقل کے متضاد تصورات: مستقل کشمکش کا ذریعہ

عقل پرست دعویٰ کرتے ہیں کہ عقل پر مبنی نظام اختلافات کو حل کرنے کی بہترین بنیاد فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ تجربات کی روشنی میں تبدیلی کا رجحان رکھتا ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی:

متضاد عقلی تصورات:

➊ دنیا میں عقل کے اتنے ہی تصورات ہیں جتنے انسان موجود ہیں۔ اس لیے کسی ایک نظریے پر اتفاق ممکن ہی نہیں۔

نزاع کا تسلسل:

➊ عقل کے نظریات ہمیشہ متضاد رہتے ہیں اور ان کے درمیان تنازعات کبھی ختم نہیں ہوتے۔

➋ سیکولر نظریات کے پیروکار تین سو سال سے باہمی اختلافات ختم نہیں کر سکے۔

➌ خود لبرل فلاسفہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے نظریات کی کوئی آفاقی عقلی بنیاد ممکن نہیں۔

اسلامی نقطۂ نظر: ایک مستحکم بنیاد

اسلام کے پاس اختلافات کو حل کرنے کے لیے قرآن و سنت کی صورت میں ایک مضبوط اور غیر متبدل بنیاد موجود ہے:

قطعی الدلالت نصوص:

➊ اسلام میں قرآن و سنت کے قطعی الدلالت احکامات پر امت کا اجماع ہوتا ہے۔

اختلافات کا دائرہ:

➊ مجتہد فیہ معاملات میں محدود اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لیکن یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اسلامی خلافت کی ضرورت

اسلامی خلافت کی غیر موجودگی کی وجہ سے آج امت میں انتشار پایا جاتا ہے۔ ایک مضبوط خلافت:

➊ مختلف اسلامی گروہوں کو نظم و ضبط میں رکھ سکتی ہے۔

➋ ذمیوں کو ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے، جیسا کہ اسلامی تاریخ میں نظر آتا ہے۔

سیکولر نظام کی ناکامی

سیکولر ریاستیں بھی اپنے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے سخت ریگولیشنز پر انحصار کرتی ہیں:

➊ اگر یہ ریاستیں اپنی ذمہ داریاں چھوڑ دیں تو معاشرتی اور معاشی ادارے انتشار کا شکار ہو جائیں گے۔

➋ اسی طرح، اسلامی خلافت کے قیام سے اسلامی معاشرت میں موجود گروہی اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے