عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کا حکم اور مستثنیات
ماخوذ: فتاوی علمیہ جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ274

سوال

عصر کی نماز کے بعد سنتیں یا نفل نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں یا نہیں؟
(ایک سائل)

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عصر اور فجر کے بعد نفل نماز کی ممانعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فجر اور عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہے:

"لاَ صَلاَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ ، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ”
ترجمہ:
"فجر (کی فرض) نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔”
(صحیح بخاری: 586، صحیح مسلم: 1/828)

یہ ممانعت نوافل سے متعلق ہے، یعنی ان مخصوص اوقات میں عام نفل نمازیں پڑھنا منع ہے۔

دیگر کتب حدیث میں بھی یہی مفہوم

اس مفہوم کی احادیث کثرت سے مروی ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
سنن النسائی (ج1، ص278)
◈ دیگر احادیث کتب میں بھی بکثرت موجود ہیں

فقہی وضاحت: ممانعت کی نوعیت

ممانعت تنزیہی ہے یا تحریمی؟
◈ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے بالکل وقت میں نماز پڑھنے کی ممانعت تحریمی ہے۔
◈ اس کے علاوہ باقی اوقات میں، جیسے کہ عصر کے فوراً بعد یا فجر کے فوراً بعد، ممانعت تنزیہی ہے، یعنی کراہت کے ساتھ اجازت ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت

"نہی رسول اللہ ﷺ عن الصلاة بعد العصر إلا أن تكون الشمس بيضاء نقية مرتفعة”
رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، **سوائے اس وقت کے جب سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔
(سنن النسائی: 574، سنن ابی داؤد: 1274)
اس کی سند صحیح ہے۔

ممانعت عامہ سے مستثنیٰ نمازیں

درج ذیل نمازیں ان اوقات میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں:

قضا نمازیں
اگر کسی فرض نماز کی قضا ہو گئی ہو اور وہ یاد آ جائے یا انسان نیند سے بیدار ہو، تو وہ نماز فوراً ادا کی جا سکتی ہے۔

نماز جنازہ
اگر میت موجود ہو اور وقت کم ہو تو جنازہ کی نماز ان اوقات میں بھی جائز ہے۔

نماز استسقاء
بارش کے لیے دعا اور نماز۔

نماز کسوف
سورج گرہن کی نماز۔

تحیۃ المسجد
مسجد میں داخل ہونے کے بعد ادباً دو رکعت نماز۔

بیت اللہ میں نفل نماز
مسجد الحرام میں کسی بھی وقت نماز پڑھنا جائز ہے۔

سنتِ راتبہ اگر رہ جائیں
اگر روزمرہ کی سنتِ مؤکدہ (مثلاً فجر یا ظہر کی سنت) رہ گئی ہو، تو ان کو بعد میں قضا کیا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا عمل

ایک بار رسول اللہ ﷺ کی ظہر کی دو رکعت سنت رہ گئی تھیں، تو آپ ﷺ نے وہ رکعتیں عصر کے بعد ادا فرمائیں۔
(صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن النسائی، ج1، ص281، 282)

صحابۂ کرام کا عمل

سیدنا قیس بن قہد رضی اللہ عنہ کی فجر کی دو سنتیں رہ گئی تھیں، تو انہوں نے فرض نماز کے بعد اسی وقت ادا کر لیں۔

رسول اللہ ﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی، یعنی کوئی ممانعت نہ فرمائی۔
(صحیح ابن خزیمہ: 6، ص162، حدیث 1116)
(ابن حبان: ج4، ص82، حدیث 2462)

حاکم اور ذہبی دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔
(المستدرک، التلخیص: ج1، ص274–275)
اس کی سند صحیح اور متصل ہے۔

دیگر حوالہ جات:

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
"ھدیہ المسلمین فی جمع الاربعین من صلوٰۃ خاتم النبیین” از راقم الحروف، حدیث: 24
(شہادت، جولائی 1999ء)

خلاصہ:

◈ عصر اور فجر کے بعد عام نفل نمازیں نہ پڑھی جائیں۔
◈ ضروری نمازیں، جیسے قضا، سنتِ مؤکدہ، تحیۃ المسجد وغیرہ، ان اوقات میں پڑھی جا سکتی ہیں۔
◈ ممانعت کی نوعیت سخت (تحریمی) نہیں، سوائے ان اوقات کے جب سورج طلوع یا غروب ہو رہا ہو۔
◈ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی یہی بتاتا ہے کہ خصوصی حالات میں نماز جائز ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1