سوال
عشاء کی نماز کا وقت کب تک ہے اور کیا ہر روز آخر وقت میں نماز ادا کرنے سے زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے؟ جبکہ نماز باجماعت اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
جواب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
➊ عشاء کی نماز کا وقت:
عشاء کی نماز کا وقت صحیح احادیث کی روشنی میں نصف رات تک ہے۔ یعنی نصف رات تک عشاء کی نماز کا وقت جاری رہتا ہے۔ تاہم، بعض احادیث کے مطابق ثلث رات تک بھی عشاء کی نماز پڑھنا افضل ہے بشرطیکہ نمازیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
➋ فضیلت:
اگر نماز باجماعت کا اہتمام اول وقت میں ہوتا ہے تو اس میں تاخیر کرنا مناسب نہیں، کیونکہ اول وقت میں نماز باجماعت ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ لیکن اگر جماعت کا اہتمام ممکن ہو اور تاخیر کرنے سے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو تو ثلث رات تک نماز ادا کرنا افضل سمجھا جاتا ہے۔
(محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، الاعتصام، جلد ۱۳، شمارہ نمبر ۵)
➍ خلاصہ:
◄ عشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے۔
◄ ثلث رات تک نماز ادا کرنا افضل ہے اگر نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔
◄ اگر جماعت اول وقت میں ہو تو وہی افضل ہے۔
◄ واللہ اعلم
2 تبصرے
عشاء کی نماز کا وقت نصف شب تک،، لیکن ثلث رات تک پڑھنا افضل ہے نماز کو وقت گزرنے کے بعد پڑھنا کیسے افضل ھوا ؟
” عشاء کی نماز کا اخری وقت اور فضیلت "
تبصرہ کرنے کا شکریہ۔
آپ نے یہ حصہ اگنور کر دیا:
تاہم، بعض احادیث کے مطابق ثلث رات تک بھی عشاء کی نماز پڑھنا افضل ہے بشرطیکہ نمازیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
چونکہ یہ ایک فتوی ہے اس لیئے سائل کو مختصر مسئلہ سمجھایا گیا ہے اور تفصیلی دلائل کا ذکر نہیں کیا گیا۔
لیکن میں آپ کی خدمت میں وہ احادیث پیش کر دیتا ہوں جن کا فتوی میں صرف ذکر کیا گیا ہے اور بیان نہیں کیا گیا:
1. «عن عائشة رضي الله عنها قالت: اعتم النبى ﷺ ذات ليلة حتيٰ ذهب عامّة الليل وحتي نام أهل المسجد ثم خرج فصلي وقال: إنه لوقتها، لولا أن أشق على أمتي» (مسلم: کتاب المساجد، رقم ۲۱۹)
”حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم ﷺنے عشاء کی نماز میں اتنی تاخیر کی کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا اور مسجد میں موجود لوگ سونے لگے۔ پھر آپﷺنکلے نماز پڑھائی اور فرمایا اگر مجھے اُمت کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو نمازِ عشاء کا یہی وقت مقرر کرتا”
2. صحیح بخاری میں ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے ہے۔ فرماتے ہیں:
«إن رسول الله ﷺ شغل عنها ليلة فأخّرها حتي رقدنا فى المسجد ثم استيقظنا ثم رقدنا ثم استيقظنا ثم خرج علينا النبيﷺ ثم قال ليس أحد من أهل الأرض ينتظر الصلوة غيركم وكان ابن عمر لا يبالي أقدمها أو أخرها إذا كان لا يخشيٰ أن يغلبه النوم عن وقتها وقد كان يرقد قبلها»
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرتﷺ کو ایک رات کچھ مصروفیت تھی۔ آپؐ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی یہاں تک کہ ہم لوگ مسجد میں سوگئے۔ پھر آنکھ کھلی۔ پھر سوگئے، پھر جاگے۔ اس کے بعد نبی اکرمﷺحجرے سے برآمد ہوئے اور فرمایا: اس وقت تمہارے سوا دنیا میں کوئی نماز کا منتظر نہیں ہے۔
اور عبداللہ بن عمر (راویٔ حدیث) کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے کہ عشاء کی نماز جلدی پڑھیں یا دیر سے۔ جب ان کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ سوجانے سے وقت جاتا رہے گا اور کبھی وہ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے بھی سوجاتے تھے۔”
3. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
”ان دنوں مدینہ کے سوا ساری دنیا میں اور کہیں نماز نہ ہوتی تھی۔ اور اگر انسان کو تھکاوٹ کا احساس ہورہا ہو تو عشاء کی نماز سے قبل سوجانے کی بھی رخصت ہے۔ بشرطیکہ نماز باجماعت فوت نہ ہوجائے۔” (بخاری: رقم ۸۶۴)