سوال
کیا "الستار” اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے؟ اور کیا "عبد الستار” نام رکھنا جائز ہے؟ کیونکہ اسماء و صفات توقیفی ہیں اور احادیث میں صرف "ستیر” کا ذکر ملتا ہے۔
جواب از فضیلۃ الشیخ عمر اثری حفظہ اللہ
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے حوالے سے درج ذیل نکات قابل غور ہیں:
1. "الستار” بطور اللہ کا نام
◄ "الستار” کے بارے میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔
◄ اگرچہ عام طور پر لوگ "الستار” کا استعمال کرتے ہیں، لیکن صحیح احادیث میں "ستیر” کے نام کا ذکر ملتا ہے۔
2. حدیث کی روشنی میں "ستیر”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْتَتِرْ”
(سنن ابو داؤد: 4012)
(اللہ حیا دار ہے، پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء و پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔)
◄ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ "ستیر” اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے، جبکہ "الستار” کے بارے میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔
3. "عبد الستار” نام رکھنے کا حکم
قاعدہ شرعی
◄ جب عبدیت کی اضافت کی جاتی ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کے ان ناموں کی طرف ہونی چاہیے جو اسمائے حسنیٰ میں سے ہیں۔
◄ چونکہ "الستار” کے بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا نام ہے، اس لیے "عبد الستار” نام رکھنا درست نہیں ہے۔
◄ یہی قول شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
خلاصہ
◄ "ستیر” اللہ تعالیٰ کا ثابت شدہ نام ہے، جبکہ "الستار” کا ذکر اللہ کے ناموں میں نہیں ملتا۔
◄ "عبد الستار” نام رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اصول کے مطابق درست نہیں ہے۔