عالمی وبا کی صورت میں جرائم کا پھیلاؤ اور اسلامی تعزیرات

دنیا بھر میں جرائم

دنیا بھر میں جرائم نے ایک عالمگیر وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سبھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے میں جرائم سرایت کر چکے ہیں اور کوئی ملک بھی ان سے محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے ملک کا شمار بھی دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں جرائم کا گراف بلند ہے۔ روزانہ کے اخبارات میں قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا، لوٹ مار، جنسی تشدد اور دیگر جرائم کی خبریں بھری ہوتی ہیں۔

انسداد جرائم کی کوششیں

معاشرے کے دانشور اور حکومتی ادارے ان جرائم کے سدباب کے لیے مسلسل تدابیر کر رہے ہیں، لیکن جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اسلامی تعزیری قوانین کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی قوانین نہ صرف تاریخ میں آزمودہ ہیں بلکہ ان کا نفاذ سماج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسلام میں جرائم کا انسداد

اسلام میں انسانی جان، مال، عزت اور نسل کی حفاظت بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ اسلام ایسے جرائم کی سختی سے روک تھام کرتا ہے جو معاشرتی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ امام غزالیؒ کے مطابق، شریعت نے ان پانچ مقاصد (جان، عقل، مال، نسل، اور دین) کی حفاظت کو لازم قرار دیا ہے اور ان کے خلاف جرائم پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔

اسلامی سزاؤں کا فلسفہ

قرآن کریم میں جرائم کی سزاؤں کا مقصد دو چیزوں پر مبنی ہے:

  • مجرم کو سزا دینا تاکہ وہ دوبارہ جرم کا ارتکاب نہ کرے۔
  • دوسروں کے لیے عبرت تاکہ وہ بھی جرم سے باز رہیں۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(البقرہ: 179)
(قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے عقل والو، شاید تم پرہیزگار بنو۔)

اسلامی قوانین کی تاریخی افادیت

اسلامی تعزیری قوانین کے نفاذ سے امن و امان کا قیام تاریخی حقیقت ہے۔ جب سرزمین عرب میں یہ قوانین نافذ کیے گئے تو سماجی برائیاں جیسے چوری، قتل اور زنا تقریباً ختم ہو گئیں اور پورے خطے میں امن کی فضا قائم ہو گئی۔

اسلامی ریاست کی ذمہ داری

اسلامی سزاؤں کا نفاذ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان کا نفاذ افراد یا دیگر اداروں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ امام رازیؒ کے مطابق، عوام کو مجرموں پر حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں، یہ اختیار صرف اسلامی ریاست کے سربراہ کو ہے۔

موجودہ دور میں اسلامی تعزیری قوانین کی ضرورت

آج بھی اگر اسلامی تعزیری قوانین کو نافذ کیا جائے تو معاشرتی برائیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ جہاں یہ قوانین نافذ ہیں، وہاں جرائم کی شرح کم ہے، جبکہ جن ممالک میں یہ قوانین لاگو نہیں ہیں وہاں جرائم کی شرح کئی گنا زیادہ ہے۔

نتیجہ

اسلامی تعزیری قوانین نہ صرف جرائم کو روکنے میں مؤثر ہیں بلکہ ان کے ذریعے معاشرتی امن و سکون کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی ریاستوں کو ان قوانین کے نفاذ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے تاکہ جرائم کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

حوالاجات

  • صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، 3595
  • قرآن مجید، سورہ البقرہ، آیت 179
  • ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 2/256
  • جاراللہ الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ، مصر، 1/333
  • فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، المکتبۃ التوفیقیۃ مصر، 5/50-51
  • تفسیر کبیر، امام رازی

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!