ظہر کا ابتدائی وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

ظہر کا ابتدائی وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے:

لغوی وضاحت: اس کا معنی دعا، نماز، تسبیح اور رحمت وغیرہ مستعمل ہے، یہ مصدر ہے باب صَلَّى يُصَلِّى (تفعیل) سے، لفظ مُصلَّي ”جائے نماز“ اس سے مشتق ہے نیز اس کی جمع صلوات آتی ہے ۔ [القاموس المحيط ص/ 1173 ، المنجد ص/ 479]
اصطلاحی تعریف: ایسی معروف عبادت کا نام ہے کہ جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں، ابتداء تکبیر کے ساتھ اور انتہا تسلیم کے ساتھ ہوتی ہے۔ [أنيس الفقهاء ص / 67 ، القاموس المحيط ص 1173 ، الفقه الإسلامي وأدلته 653/1]
مشروعیت: نماز کی مشروعیت کے دلائل میں سے چند حسب ذیل ہیں:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينِ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ [ البينة: 5]
”انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں (ابراہیم ) حنیف کے دین پر، اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوۃ دیتے رہیں۔“
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [الروم: 31]
”نماز قائم کرواور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ“
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بنى الإسلام على خمس شهادة أن لا إله الا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكوة والحج وصوم رمضان
”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
[بخارى: 8 ، كتاب الإيمان: باب بني الإسلام على خمس، مسلم 16 ، ترمذي 269 ، نسائي 107/8 ، أحمد 120/2 ، حميدي 703 ، ابن خزيمة 308 ، أبو يعلى 5788 ، ابن حبان 158 ، بيهقى 81/4 شرح السنة 64/1]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پچاس (50) نمازیں فرض کی گئیں، پھر پانچ (5) نمازوں تک کمی کر دی گئی اس کے بعد اعلان کر دیا گیا کہ:
يا محمد! إنه لا يبدل القول لدى وإن لك بهذه الخمس خمسين
اے محمد! بلا شبہ میرے نزدیک قول کو تبدیل نہیں کیا جاتا اور تمہارے لیے ان پانچ نمازوں کے بدلے پچاس نمازوں کا اجر ہوگا۔“
[صحيح: صحيح ترمذي 176، كتاب الصلاة: باب كم فرض الله على عباده من الصلوات، ترمذي 213 ، نسائي 221/1 ، أحمد 161/3]
➎ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ :
یا رسول الله أخبرني ما فرض الله على من الصلاة؟ قال الصلوات الخمس إلا أن تطوع
”مجھے خبر دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نماز کا کتنا حصہ فرض کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف پانچ نمازیں فرض ہیں اس کے علاوہ نفلی طور پرتم نماز ادا کر سکتے ہو۔
[مؤطا: 175/1 ، كتاب النداء للصلاة: باب جامع الترغيب فى الصلاة ، بخارى 46 ، مسلم 11 ، أبو داود 391 ، أحمد 162/1 ، نسائي 226/1 ، بيهقي 361/1 ، أبو عوانه 310/1 ، مشكل الآثار 356/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے