طواف کے چکروں میں رمل کیسے کریں؟

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْخَامِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَكَّةَ . فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ قَوْمٌ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ . فَأَمَرَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلَاثَةَ ، وَأَنْ يَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ ، وَلَمْ يَمْنَعْهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا: إلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ }
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام مکہ تشریف لائے تو مشرکین (آپس میں) کہنے لگے کہ تمھارے پاس وہ لوگ آئے ہیں جنھیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے، تو نبی ملت اسلام نے انھیں (یعنی صحابہ کو ) حکم فرمایا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں رکنوں کے درمیان عام چال میں چلیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر صرف آسانی کرنے کی غرض سے یہ حکم نہیں فرمایا کہ تمام چکروں میں رمل کرو۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب كيف كان بدء الرمل ، ح: 1565 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف والعمرة ، ح: 1266]
شرح المفردات:
وَهَنَتْهُمُ: انھیں کمزورونا تو اں اور بے ہمت کر دیا ہے۔
وهن: واحد مذکر غائب فعل ماضی معلوم ، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ
يَقْرِبُ: عہد اسلام سے قبل مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا۔
الرمل: سینہ نکال کر اور کندھے ہلا ہلا کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے تیز چال چلنا۔ اس سے کفار کو اپنی طاقت اور قوت دکھلانا مقصود تھا۔
الركنين: ان سے مراد دونوں یمانی رکن ہیں۔
الإبْقَاءُ عَلَيْهِمُ: آسانی و نرمی ، شفقت و محبت .
ابقاء: مصدر، باب افعال ۔
شرح الحديث:
رمل کرنے کے حکم کی توجیہ حدیث میں ہی مذکور ہے کہ مشرکین نے یہ سمجھا کہ مسلمان مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آنے کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ لگوانے کے لیے رمل کا حکم فرمایا، تا کہ ان کا یہ خیال زعم باطل ثابت ہو ۔ بعد میں یہ عمل سنت کے طور پر جاری رہا اور اب بھی اس سنت پر عمل کیا جاتا ہے ۔
الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ إذَا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الْأَسْوَدَ – أَوَّلَ مَا يَطُوفُ – يَخُبُّ ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف شروع کرتے وقت حجر اسود کو بوسہ دیتے اور پہلے تین چکروں میں رمل فرماتے ۔
[صحيح البخاري ، كتاب الـحـج ، بــاب اسـلام الـحـجـر الأسـود حين يقدم مكة أول مايطوف ويرمل ثلاثاً، ح: 1603 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف والعمرة ، ح: 1261 .]
شرح المفردات :
يَحُبُّ: یہ رمل کا مترادف ہے۔ واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم، باب نَصَرَ يَنْصُرُ
شرح الحديث:
اس حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمل فرمایا کرتے تھے ۔ گویا رمل کا قولی وعملی ہر دو طرح سے حکم دیا گیا ہے۔
الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ }
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر ) طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چھڑی کے ساتھ حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔
[صحيح البخاري، كتاب الحج ، استلام الركن بالمحجن ، ح: 1530 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب جواز الطواف على بعير وغيره واستلام الحجر بمحجن ونحوه للراكب ، ح: 1272 .]
شرح المفردات:
المِحْجَنُ : ایسی چھڑی جس کا سرا مڑا ہوا ہو ۔
شرح الحديث:
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہو کر طواف اس لیے کیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کو حج کا طریق کار بتلا سکیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی امام لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے کسی بلند جگہ پر بیٹھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [الفروع لابن المفلح: 369/3]
الْحَدِيثُ الثَّامِنُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: { لَمْ أَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنْ الْبَيْتِ إلَّا الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ } .
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے دونوں یمانی رکنوں کے بیت اللہ کے کسی حصے کا استلام کرتے نہیں دیکھا۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب الرمل فى الحج والعمرة ، ح: 1529 – صحيح مسلم، كتاب الحج، باب استحباب استلام الركنين اليمانيين فى الطواف دون الركنين الآخرين ، ح: 1267 .]
شرح المفردات:
الركنين اليمانيين: ان سے مراد ایک رکن یمانی اور دوسرا رکن شرقی ہے جس میں حجر اسود نصب ہے۔
شرح الحديث:
ایک روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ: أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لَا يَدَعُ أَنْ يَسْتَلِمَ الْحَجْرَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِي فِي كُلِّ طَوَافِه . نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر طواف میں حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ [مسند احمد: 17/2، سنن ابي داؤد: 1876]
بَابُ التَّمَتع: حج تمتع کا بیان
حج کی تین اقسام ہیں:
(1) حج افراد (2) حج تمتع (3) حج قران
حج افراد: میقات سے صرف حج ہی کا احرام باندھنا اورا کیلے حج ہی کی ادائیگی کرنا۔
حج تمتع: حج کے ایام میں پہلے عمرے کا احرام باندھنا، اس کی ادائیگی کر لینے کے بعد احرام کھول دینا۔ اور پھر یوم ترویہ یعنی 8 ذوالحجہ کوحرم ہی سے حج کا احرام باندھنا۔
حج قران: میقات سے حج و عمرہ کا اکٹھا احرام باندھنا، یا پہلے صرف عمرہ کا احرام باندھنا اور پھر حج کو بھی اس میں شریک کر لینا۔ اس صورت میں عمرے کے افعال حج میں ہی شامل ہو جاتے ہیں ، یعنی الگ سے ادا نہیں کرنا پڑتے۔
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ أَبِي جَمْرَةَ نَصْرِ بْنِ عِمْرَانَ الضُّبَعِيِّ – قَالَ { سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ الْمُتْعَةِ؟ فَأَمَرَنِي بِهَا ، وَسَأَلَتْهُ عَنْ الْهَدْيِ؟ فَقَالَ: فِيهِ جَزُورٌ ، أَوْ بَقَرَةٌ ، أَوْ شَاةٌ ، أَوْ شِرْكٌ فِي دَمٍ قَالَ: وَكَانَ نَاسٌ كَرِهُوهَا ، فَنِمْتُ . فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ: كَأَنَّ إنْسَانًا يُنَادِي: حَجٌّ مَبْرُورٌ ، وَمُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ . فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثَتْهُ . فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ } .
ابو جمره نصر بن عمران ضبعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کی بابت پوچھا تو انھوں نے مجھے اس
(230) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب فمن تمتع بالعمرة الى الحج ، ح: 1603 – صحيح مسلم، کتاب الحج، باب جواز العمرة في أشهر الحج ، ح: 1242 .
(کے کرنے ) کا حکم فرمایا، میں نے ان سے قربانی کے متعلق سوال کیا ، تو انھوں نے فرمایا: اس میں اونٹ ، گائے، بکری (کی قربانی) یا جانور میں حصہ ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگ اسے ناپسند کرتے تھے، میں (ایک روز ) سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک انسان آواز لگا رہا ہے کہ حج بھی مبرور ہے اور عمرہ بھی مقبول ہے۔ چنانچہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے یہ بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: اللہ اکبر! یہ تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
شرح المفردات :
الهدي: اس سے مراد وہ قربانی ہے جو دورانِ حج حرم میں دی جاتی ہے۔
الجزور: اس سے مراد جنس اونٹ ہوتا ہے، خواہ نر ہو یا مادہ۔
شرك فِي دَم: اونٹ یا گائے کی قربانی کے حصوں میں اپنا حصہ ڈالنا۔
شرح الحديث:
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے تمتع کی کراہیت منقول ہے، لیکن ان کا یہ موقف احادیث صحیحہ کے خلاف ہے، اس لیے مقبول نہیں ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بھی بیان ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ یہاں سے ایک اور بات عیاں ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کوئی ایسا اجتہاد یا ایسا عمل جو صحیح حدیث کے خلاف ہو، جب اسے قبول کرنا درست نہیں ہے تو پھر ان سے کم مرتبہ کسی امام یا فقیہ کے قول کو حدیث وسنت پر کیونکر ترجیح دی جا سکتی ہے؟
راوى الحديث
ابو جمره رحمہ اللہ ثقہ تابعی تھے اور آپ کے والد عمران کے صحابی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بصرہ سے تعلق تھا۔ پہلے آپ نیشاپور میں مقیم رہے، پھر مرو تشریف لے گئے اور بھر سرخس منتقل ہوئے ۔ 128 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل