طواف وداع کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّامِنُ . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ { حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْنَا يَوْمَ النَّحْرِ . فَحَاضَتْ صَفِيَّةُ . فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا مَا يُرِيدُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إنَّهَا حَائِضٌ . قَالَ: أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: اُخْرُجُوا } . وَفِي لَفْظٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { عَقْرَى ، حَلْقَى . أَطَافَتْ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قِيلَ: نَعَمْ . قَالَ: فَانْفِرِي } .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو ہم قربانی کے دن لوٹے ۔ صفیہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ کرنا چاہا جو آدمی اپنی گھر والی سے کرتا ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو حائضہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ ہمیں روکنے والی ہے؟ تو آپ کو بتلایا گیا کہ اس نے یوم نحر ہی کو طواف افاضہ کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکلو۔
ایک روایت میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عقري حلقي ، کیا اس نے نحر کے دن طواف کیا تھا؟ جواب دیا گیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ نکل پڑے۔
شرح المفردات:
أفضنا: یعنی جب ہم وقوف عرفہ کے بعد منی کی طرف لوٹے ۔ / تثنیہ وجمع مذکر ومؤنث متکلم ، فعل ماضی معلوم ، باب افعال۔
عقرى حلق: لفظی معنی کے لحاظ سے یہ کلمات بانجھ اور گنجا ہونے کی بددعا ہیں، لیکن اہلِ عرب انہیں صرف محاورةً بولا کرتے تھے اور اس سے ان کا مقصود قطعی طور پر بددعا دینا نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ اسی طرح کے دیگر کلمات مثلاً: تربت يداك ، تكلتك أمك اور رغم أنفك بھی ان کے تکیہ کلام تھے ۔
شرح الحديث:
طواف وداع کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے: امام احمد رحمہ للہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ للہ کے ایک قول کے مطابق طواف وداع واجب ہے اور اس کے ترک پر (بطور فدیہ ) قربانی دینا ہو گی، جبکہ امام مالک رحمہ للہ فرماتے ہیں کہ یہ نہ تو واجب ہے اور نہ ہی مسنون، بلکہ یہ مستحب ہے، اور اس کے ترک پر قربانی بھی نہیں پڑے گی، کیونکہ قربانی تو واجب اور مسنون عمل کے ترک پر پڑتی ہے ۔ [الافصاح لابن هبيرة: 276/1]
حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے طواف وداع کا حکم نہیں ہے، لیکن اگر وہ حدود حرم سے نکلنے سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو پھر اسے کرنا پڑے گا، پھر اگر وہ نہیں کرتی ، خواہ کسی عذر کی وجہ سے ہی ہو، تو اسے (بطور فدیہ ) جانور کی قربانی دینا ہوگی۔ [الاقناع للحجاوي: 30/2]
(247) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب الزيارة يوم النحر ، ح: 1733 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب وجوب طواف الوداع وسقوطه عن الحائض ، ح: 386
248 – الْحَدِيثُ التَّاسِعُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { أُمِرَ النَّاسُ أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَيْتِ ، إلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنْ الْمَرْأَةِ الْحَائِضِ } .
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری کام بیت اللہ سے متعلق ہو (یعنی طواف وداع کریں) مگر حائضہ عورت سے اس کی تخفیف کی گئی ہے۔
شرح المفردات:
خفف: تخفیف کا مطلب کہ اسے اس کا پابند نہیں کیا گیا ۔ / واحد مذکر غائب فعل ماضی مجہول، باب تفعیل ۔
شرح الحديث:
اس حدیث میں بھی گزشتہ حدیث کے حکم ہی کا بیان ہے۔
(248) صحيح البخارى، كتاب الحج، باب طواف الوداع ، ح: 1755 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب وجوب طواف الوداع وسقوطه عن الحائض ، ح 1328

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل