طلاق دینا جائز ہے مکلّف و خود مختار شخص کی طرف سے
لغوی وضاحت: حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ لغت میں طلاق کا معنی ”بندھن کو کھول دینا ہے“ ۔ یہ لفظ إطلاق سے مشتق ہے جس کا معنی ”چھوڑ دینا اور ترک کر دینا ہے۔“
شرعی تعریف: طلاق ، نکاح کی گرہ کھول دینے کو کہتے ہیں۔ امام الحرمین کا کہنا ہے کہ جاہلیت میں بھی اس کے لیے لفظِ طلاق ہی مستعمل تھا پھر شریعت نے بھی اس کو برقرار رکھا۔
[فتح البارى: 435/10]
طلاق کی حکم کے اعتبار سے پانچ اقسام بیان کی جاتی ہیں:
➊ حرام: جبکہ بدعی ہو۔
➋ مکروہ: جب درست حالت کے باوجود بغیر کسی سبب کے دی جائے۔
➌ واجب: اس کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب طرفین کے فیصلہ کرنے والے جدائی و علیحدگی کو ہی بہتر سمجھیں۔
➍ مستحب: جب عورت عفیف و پاکدامنہ نہ ہو یا شرعی واجبات مثلاً نماز وغیرہ میں ایسی کوتاہ ہو کہ اس پر جبراََ ان اعمال کو لازم کر دینا بھی ممکن نہ ہو۔
➎ جائز: جب مرد عورت کو اس کے بُرے اخلاق یا کسی اور وجہ سے نا پسند کرتا ہو ۔
[نيل الأوطار: 313/4 ، المغني: 323/10]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ …. [البقرة: 236]
”تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جبکہ تم نے انہیں چھوا نہ ہو ۔“
➋ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ [البقرة: 229]
”طلاق دو مرتبہ ہے۔ “
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر ان سے رجوع کر لیا۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1998 ، كتاب الطلاق: باب فى المراجعة ، ابو داود: 2283 ، نسائي: 213/6 ، ابن ماجة: 2016 ، دارمي: 160/2 ، بيهقي: 321/7 ، ابن حبان: 4275 ، حاكم: 197/2]
➍ حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کی بد زبانی کا ذکر کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
طلقها إذا
”تب اسے طلاق دے دو۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 129 ، كتاب الطهارة: باب فى الاستنثار ، أبو داود: 142 ، أحمد: 211/4]
جس روایت میں ہے:
أبغض الحلال إلى الله الطلاق
”حلال اشیا میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بُری چیز طلاق ہے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 2040 ، ابو داود: 2178 ، كتاب الطلاق: باب فى كراهية الطلاق ، ابن ماجة: 2018 ، حاكم: 196/2 ، بيهقي: 322/7]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا طلاق ولا عتاق فى إغلاق
”طلاق اور آزادی اغلاق میں نہیں ہوتی ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1919 ، كتاب الطلاق: باب فى الطلاق على غلط ، إرواء الغليل: 2047 ، ابو داود: 2193]
اِغلاق لغت میں بند کر دینے کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں اس کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں:
① زبر دستی لی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
② شدید غصے میں کہ جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی جیسا کہ امام ابوداودؒ نے اس حدیث کے بعد خود بیان کیا ہے کہ :
الغلاق أظنه فى الغضب
”میرے خیال میں غلاق غصے میں ہوتا ہے۔ “
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
طلاق السكران والمستكره ليس بجائز
”حالتِ نشہ میں موجود انسان اور مجبور شخص کی (دی ہوئی ) طلاق جائز نہیں ۔“
[بخاري: 793/2]
➌ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[صحيح: ارواء الغليل: 2045 ، بيهقي: 359/7]
امام مالکؒ کو اس جرم کی پاداش میں بے حد سزائیں دی گئیں لیکن آپ اپنے صحیح و ٹھوس موقف پر مضبوطی سے قائم رہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ ”جبری طلاق واقع نہیں ہوتی ۔“
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابن قدامہؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔
(ابو حنیفہؒ) جبری طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ یہ مکلّف کی طرف سے واقع ہوئی ہے۔
[المغني: 350/10]
(راجح) پہلا موقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
خواہ مذاق میں ہی ہو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث جدهن جد وهزلهن جد ….
”تين امور ایسے ہیں کہ ان کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق سے کہنا بھی قصد ہی ہے: نکاح ، طلاق اور رجوع ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1920 ، كتاب الطلاق: باب فى الطلاق على الهزل ، ابو داود: 2194 ، ترمذي: 1184 ، ابن ماجة: 2039 ، سعيد بن منصور: 1603 ، دارقطني: 256/3 ، حاكم: 198/2 ، طحاوي: 18/3]
(ابن قیمؒ) جمہور علماء کے نزدیک ہنسی مذاق میں دی گئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے اور صحابہ و تابعین سے یہی بات محفوظ (یعنی صحیح ثابت) ہے۔
[أعلام الموقعين: 124/3]
جب عورت ایسے طہر میں ہو جس میں شوہر نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور اس نے اس سے پچھلے حیض میں یا واضح حمل میں اسے طلاق نہ دی ہو
طلاق کی دو قسمیں ہیں:
➊ طلاق سنی
➋ طلاق بدعی
طلاق سنی میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
➊ حالت حیض میں طلاق نہ دی گئی ہو:
جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے ۔
[بخاري: 4908 ، مسلم: 1471 ، ابو داود: 2180 ، نسائي: 213/6 ، ابن ماجة: 2019 ، أحمد: 64/2]
➋ حالت نفاس میں طلاق نہ دی گئی ہو:
کیونکہ نفاس طہر نہیں ہوتا اور حدیث میں ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے فرمایا:
مره فليرا جعها ثم ليمسكها حتى تظهر ثم تحيض ثم تطهر
”اسے کہو کہ رجوع کرے اور اسے اس وقت تک روک لے کہ طہر شروع ہو جائے پھر ایام ماہواری آئیں پھر طہر شروع ہو جائے (پھر اگر چاہے تو طلاق دے دے) ۔“
[بخاري: 4908 ، كتاب التفسير: باب سورة الطلاق ، مسلم: 1471]
➌ ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مرد نے عورت سے مباشرت نہیں کی:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فليطلقها طاهرا قبل أن يمسها
”اسے حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے ۔“
[أيضا]
➍ ایسے طہر میں طلاق نہ دے جس سے پچھلے حیض میں اس نے طلاق دی ہو، جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو روک لیں حتی کہ طہر آ جائے پھر حیض آئے اور پھر طہر آجائے ۔ پھر اس طہر میں طلاق دیں ۔
[بخاري: 5251]
اگر یہ شرط نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حیض کے بعد آنے والے طہر میں ہی طلاق کا حکم دے دیتے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ پہلے طہر میں بھی طلاق دی جا سکتی ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا
”پھر اسے حالت طہر میں یا حمل میں طلاق دو۔“
چونکہ یہاں اول و ثانی طہر کی قید نہیں ہے لہذا جب عورت ایام ماہواری سے طہارت حاصل کر لے تو اس طہر میں اسے طلاق دی جا سکتی ہے۔
راجح بات یہی ہے کہ پہلے طہر میں ہی طلاق دی جائے گی ۔ لیکن چونکہ گذشتہ حدیث صحیحین کی ہے اور اس میں کچھ زیادہ ہے لہذا اسے بھی قبول کیا جائے گا یعنی جب کسی نے دوران حیض عورت کو طلاق دی ہو تو پہلے طہر میں نہیں بلکہ ایک طہر چھوڑ کر دوسرے طہر میں وہ دوبارہ طلاق دے گا اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پہلے طہر میں ہی طلاق دی جائے گی۔
➎ صرف ایک طلاق دی جائے:
جیسا کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والے شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور عہد رسالت میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔
[صحيح: صحيح نسائي: 3189 ، إرواء الغليل: 122/7 ، نسائي: 3430 ، 3435 ، كتاب الطلاق: باب الثلا المجموعة وما فيه من التغليظ]
(بخاریؒ) سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہم بستری نہ کی ہو نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے۔
[بخاري: قبل الحديث / 5251 ، كتاب الطلاق]
(ابن قدامہؒ) مسنون طلاق یہ ہے کہ آدمی ایسے طہر میں عورت کو (ایک) طلاق دے کہ جس میں اس نے عورت سے ہم بستری نہ کی ہو پھر عورت کو چھوڑ دے حتی کہ وہ اپنی عدت پوری کر لے۔
(مالکؒ ، احمدؒ ، شافعیؒ) انہوں نے اسی کو طلاقِ سنی قرار دیا ہے۔
(ابو حنیفہؒ) سنت یہ ہے کہ عورت کو تین طلاقیں دے (وہ اس طرح کہ ) ہر طہر میں ایک طلاق دے۔
[المغنى: 326/10]
◈ یاد رہے کہ دورانِ حمل دی گئی طلاق طلاقِ سنی ہے اور جائز و مباح ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا
”پھر اسے حالت طہر میں یا حمل میں طلاق دو ۔“
[مسلم: 1471 ، صحيح ابو داود: 1910 ، كتاب الطلاق: باب فى طلاق السنة ، ابو داود: 2181 ، ترمذي: 1176]
اس صورت کے علاوہ کسی اور صورت میں طلاق دینا حرام ہے
اس کو طلاقِ بدعی کہا جاتا ہے۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ [الطلاق: 1]
”اے نبی ! (اپنی امت کے لوگوں سے کہہ دو کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو ۔“
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی آمنہ بنت غفار کو دوران حیض طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے روکے رکھے حتی کہ وہ ایام ماہواری سے پاک ہو جائے پھر دوبارہ ایام ماہواری آئیں، پھر وہ پاک ہو جائے تو اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھے تو حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے:
فتلك العدة كما أمره الله
”یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔“
[بخاري: 4908 ، كتاب التفسير: باب الطلاق ، مسلم: 1471 ، أحمد: 26/2 ، ترمذي: 1176]
ان واضح نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے طلاقِ بدعی حرام ہے۔
اس (بدعی) طلاق کے واقع ہونے میں اور ایسی ایک سے زائد طلاقوں کے واقع ہونے میں کہ جن کے درمیان رجوع کا وقفہ نہ ہو ، اختلاف ہے
(جمہور ، ائمہ اربعہ ) طلاق بدعی واقع ہو جائے گی۔
[نيل الأوطار: 316/4]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ آیاتِ طلاق کا عموم ۔
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دوران حیض اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ لٰہذا ثابت ہوا کہ دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہو گی کیونکہ رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:
حسبت على بتطليقه
”یہ طلاق جو میں نے حالت حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی ۔“
[بخاري: 5253 ، كتاب الطلاق: باب إذا طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هي واحدة
”یہ (جو تم نے طلاق دی ہے ) ایک ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 126/7 ، التعليقات الرضية على الروضة الندية: 247/2 ، دارقطني: 9/4]
➎ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اسے رجوع کا کہو پھر وہ عدت میں طلاق دے:
وتحتسب التطليقة التى طلق أول مرة
”اور وہ طلاق جو اس نے پہلی مرتبہ دی تھی شمار کر لی جائے گی ۔“
[إرواء الغليل: 131/7 ، بيهقي: 326/7]
(البانیؒ) انہوں نے تفصیلا روایات نقل کرنے کے بعد جمہور کے قول کو ترجیح دی ہے۔
[إرواء الغليل: 133/7]
بعض علما کا خیال ہے کہ طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی جیسا کہ ان میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں:
(ابن تیمیہؒ) طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ۔
[الفتاوي: 32 – 5]
(ابن قیمؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[زاد المعاد: 218/5 – 238]
(ابن حزمؒ ) اسی کو برحق سمجھتے ہیں۔
[المحلى: 358/9 ، المالة: 1945]
(شوکانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 319/4]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کو راجح تصور کرتے ہیں ۔
[الروضة الندية: 106/2]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! (اپنے امتیوں سے کہ دو کہ ) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو ۔“ [الطلاق: 1]
اس عدت میں طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ۔ اصول میں بھی یہ بات مسلم ہے کہ کسی چیز کا حکم اس کے متضاد سے ممانعت ہوتی ہے اور ممانعت ایسی چیز کے فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہے جس سے منع کیا گیا ہو ، لٰہذا فاسد چیز سے حکم ثابت نہیں ہو سکتا۔
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
كل بدعة ضلالة
”ہر بدعت گمراہی ہے ۔“
[مسلم: 1435]
جب یہ طلاق بدعی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے تو گمراہی سے حکم کا اثبات کیسے ممکن ہے؟
➌ ایک حدیث میں ہے:
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں وہ مردود ہے۔“
[بخاري: 2697 ، مسلم: 1718]
چونکہ طلاق بدعی کا حکم نہ تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لٰہذا یہ مردود ہے تو پھر اس کا شمار کیونکر ہو سکتا ہے ۔
(راجح) طلاق بدعی واقع ہو جاتی ہے یہی موقف دلائل کی رو سے زیادہ قوی ہے۔
اس مسئلے میں علما کے چار مختلف اقوال ہیں:
➊ سب طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ جمہور اور ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے۔
➋ ایک طلاق بھی واقع نہیں ہو گی کیونکہ یہ بدعت و حرام ہے۔ یہ امام ابن حزمؒ اور تابعین کی ایک جماعت کا مذ ہب ہے۔
➌ اگر مطلقہ سے دخول کر لیا گیا ہو تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی بصورت دیگر ایک واقع ہو گی۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھیوں کی ایک جماعت اور امام اسحاقؒ کا مذہب ہے۔
➍ عورت سے دخول ہوا ہو یا نہ ہوا ہو صرف ایک رجعی طلاق ہی واقع ہو گی۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام اسحاقؒ کا مذہب یہ ہے ۔
(راجح) آخری قول سب سے زیادہ صحیح اور راجح ہے۔
[الروضة الندية: 106/2]
راجح مؤقف یہ ہے کہ ایسی طلاقیں واقع نہیں ہوتیں
یعنی اکٹھی تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں بلکہ وہ صرف ایک شمار ہوتی ہیں اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ [البقرة: 229]
”طلاق دو مرتبہ ہے۔“
لفظِ مرتان مرة کا تثنیہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفے کے ساتھ ۔ یہ معنی نہیں ہے کہ اکٹھی دو طلاقیں جیسا کہ آئندہ آیت بھی اس پر شاہد ہے:
وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [النور: 58]
”اس آیت میں لفظ مرات مرة کی جمع ہے اس لفظ کے بعد تین اوقات بیان کیے گئے ہیں جن میں وقفہ ہے نہ کہ اکٹھے ہیں (یعنی ایک مرتبہ فجر سے پہلے ، دوسری مرتبہ دوپہر کو ، تیسری مرتبہ نماز عشاء کے بعد ) ۔ لٰہذا معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں بھی وقفے کے ساتھ طلاقیں دینا مراد ہے نہ کہ اکٹھی۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كان الطلاق على عهد رسول الله وأبى بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة
”عہد رسالت ، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں ۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی جس میں ان کے لیے سہولت دی گئی تھی پس چاہیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لٰہذا آپ رضی اللہ عنہ نے اسے ان پر جاری کر دیا۔ (یعنی تینوں طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کا حکم دے دیا ) ۔
[مسلم: 1472 ، كتاب الطلاق: باب طلاق الثلاث ، ابو داود: 21990 ، نسائي: 145/6]
➌ حضرت ابورکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں پھر اس پر نادم و پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
إنها واحدة
”وہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں ۔“
[أحمد: 265/1 ، بلوغ المرام: 1009 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 212/6]
➍ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اُم رکانہ سے رجوع کر لو ۔ انہوں نے عرض کیا میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
قد علمت راجعها
”مجھے معلوم ہے تم اس سے رجوع کر لو ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1922 ، كتاب الطلاق: باب نسخ المراجعة بعد التطليقات الثلاث ، ابو داود: 2196]
اگر تینوں طلاقیں واقع ہو جاتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابورکانہ رضی اللہ عنہ کو رجوع کا حکم نہ دیتے بلکہ ام رکانہ کو کسی اور شخص سے نکاح کا مشورہ دیتے ۔
➎ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:
أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهر كم
”کیا الله تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔“
[ضعيف: ضعيف نسائي: 221 ، كتاب الطلاق: باب الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ ، نسائي: 3430]
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ درحقیقت ایک ہی شمار ہو گی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، امام مکرمہؒ اور امام طاوسؒ وغیرہ کا بھی یہی فتوی ہے ۔
[إغاثة اللهفان: 329/1 ، فتح البارى: 456/10]
(ابن تیمیہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الفتاوى: 16/3 – 17]
(ابن قیمؒ) اسی موقف کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[زاد المعاد: 241/5 ، أعلام الموقعين: 30/3]
(ابن بازؒ) اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی ۔
[الفتاوى الإسلامية: 49/3]