طلاق کی دھمکی کا شرعی حکم اور نیت کی بنیاد پر فیصلہ
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال کا خلاصہ

بلال اور عابد کے درمیان جھگڑے کے بعد، بلال نے اپنی بیوی کو دھمکی دی کہ اگر وہ عابد کے گھر گئی تو اسے طلاق دے دے گا۔ بلال کو شک ہے کہ اس نے قسم کھائی یا نہیں، جبکہ وہاں موجود لوگ بھی اصل الفاظ کے بارے میں یقین سے نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق کا حکم کیا ہوگا، اور کیا بلال کا یقین درست ہے یا طلاق کی شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جائے گی؟

جواب کا خلاصہ

اسلامی شریعت کے مطابق طلاق کو گھریلو جھگڑوں میں شامل کرنا اور معمولی باتوں پر طلاق کی دھمکی دینا ناپسندیدہ عمل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو بے جا استعمال کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ طلاق کے الفاظ کے استعمال سے بچیں۔

طلاق کی قسم اور نیت کا مسئلہ

اگر کسی شخص نے طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کیا، جیسا کہ بلال نے کیا، تو اس میں نیت کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اگر اس نے طلاق کی نیت سے بات کی تھی اور شرط پوری ہو جائے، تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ لیکن اگر نیت طلاق کی نہیں بلکہ محض منع کرنے یا ڈرانے کی تھی، تو اسے قسم سمجھا جائے گا اور شرط کے پورا ہونے پر طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ کفارہ دینا ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی رائے

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے مطابق، اگر طلاق کو قسم کی طرح استعمال کیا گیا ہو، یعنی مقصد کسی کو کسی کام سے روکنا یا کسی چیز پر زور دینا ہو، تو اس کا حکم قسم جیسا ہوگا۔ اور اگر اس قسم کو توڑا گیا تو قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

لجنۃ دائمۃ کا فتوی

لجنۃ دائمۃ کے فتوے کے مطابق، اگر کسی نے طلاق کی نیت کے بغیر اپنی بیوی کو کسی کام کے لیے مجبور کرنے کے لیے طلاق کی دھمکی دی، تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ تاہم، اگر طلاق کی نیت سے بات کی ہو اور شرط پوری ہو جائے، تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔

نتیجہ

بلال کے معاملے میں، اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ اس نے اپنی بیوی کو عابد کے گھر جانے سے روکنے کی نیت سے بات کی تھی، تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور شرط پورا ہونے پر اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر اس کی نیت واقعی طلاق دینے کی تھی اور شرط پوری ہو گئی، تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1