طب اور اللہ پاک کا اعلان ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ کی حقیقت کیا ہے؟
سوال: جدید طب ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو معلوم کر لیتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ (جو کچھ رحموں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے) کے متعلق کیا جواب ہونا چاہیے؟
جواب: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عورت کے رحم میں مذکر یا مونث ، گورا یا کالا ، کو تاہ یا لمبا جو بھی چیز ہے اس کے متعلق انسان کو بالکل علم نہیں ہوتا ، بلکہ وہ محض غور و فکر کے بعد اندازہ لگاتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو مخفی و پوشیدہ رکھا ہے ، اور یہ ایسا علم ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ خاص کر رکھا ہے ، نیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مفاتح الغیب (غیب کی کنجیاں) میں شمار کیا ہے جس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ، اس لیے کہ جنین ماں کے پیٹ میں موجود بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تو اس کا چہرہ ماں کی پشت کی طرف ہوتا ہے ، اور دونوں پیر کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی دونوں رانیں سمٹی ہوئی ہوتی ہیں ، یہاں تک کہ اس کا اگلا حصہ مکمل طور پر چھپ جاتا ہے ۔ بنابریں کسی شخص کا محض فکر و نظر اور اندازے سے رحم مادر کی مخفی و پوشیدہ چیز کی معلومات حاصل کر لینا ناممکن و محال ہے بلکہ یہ اس کی طاقت و قدرت سے بالا تر ہے ۔
بعض اطباء نے بیان کیا ہے کہ عورت کے دائیں پستان کے اوپر نشانات مذکر کی علامت ہے اور بائیں پستان کے اوپر نشانات مؤنث کی علامت ہے ۔ لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ، اور پھر اس اُصول کی صداقت بھی ثابت نہیں ہو سکی ۔
لیکن جہاں تک الٹرا ساؤنڈ یا لیبارٹری رپورٹ وغیرہ کے ذریعے بچے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا تعلق ہے تو ان چیزوں کا شمار علم الغیب میں نہیں ہوتا ۔ اور یہ نتیجہ موقوف ہے کچھ ایسے اعمال اور تجربات پر جس کو خود ڈاکٹر انجام دیتا ہے ، پھر وہ اس کے ذریعے معلومات حاصل کرتا ہے ، لہٰذا یہ سارے کام عورت کا پیٹ چاک کر کے بچے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے مترادف ہیں ۔ پھر اس طرح سے ان وسائل کے ذریعے پیٹ کے بچہ کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ آیا وہ مذکر ہے یا مؤنث ، ایک ہے یا زیادہ لیکن وہ علم غیب جس کی نفی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد گرامی فِي خمس لا يعلمهن إلا الله [صحيح البخاري ، كتاب الايمان ، باب سوال جبريل ۔ ۔ ۔ الخ ح 50]
یعنی پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے میں کی ، اس سے مراد غیبی خبروں کو علم و فکر سے معلوم کرنا ہے ۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
﴿إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ [لقمان: 34]
”بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اُسے وہی جانتا ہے ۔“
انہی چیزوں کا علم غیب سے تعلق ہے ۔
اور اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قل لا يعلم من فى السماوات والأرض الغيب إلا الله [النمل: 65]
”کہہ دیجئے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہ آسمان والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا ۔“
نیز اللہ رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا:
﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ . . .﴾ [الاعراف: 188]
”اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سی نفع بخش چیزیں حاصل کر لیتا ۔ ۔ ۔“
چنانچہ بندوں پر فرض ہے کہ وہ شرعی احکام کے سامنے سر نیاز خم کر دیں اور راضی بھی رہیں نیز غیر متعلقہ باتوں میں دخل اندازی سے پرہیز کریں ۔ واللہ اعلم !