ترغیب و ترہیب میں ضعیف روایات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دع ما يريبك إلى مالا يريبك فإن الكذب ريبة والصدق طمأنينة.
جو کام تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دے اس (کام) کے لیے جو تجھے شک میں نہ ڈالے کیونکہ جھوٹ ( باعث ) شک ہوتا ہے اور سچ (موجب) اطمینان ہوتا ہے۔
( الترمذی: ۲۵۱۸ وقال : هذا حدیث حسن صحیح)
چونکہ ضعیف روایات مشکوک ہوتی ہیں لہذا اس حدیث کی رو سے ان کو حجت ماننایا فضائل اور ترغیب و ترہیب میں پیش کرنا قطع صیح نہیں ہے۔
دوسری حدیث میں آتا ہے:
كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ماسمع –
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے۔
(رواہ مسلم فی مقدمتہ صحیحہ ص ۸ ح : ۵)
اس حدیث کے پیش نظر بھی غیر ثابت اور بے سند روایات کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ضعیف روایات بیان کرنے والے بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں۔
ضعیف روایات کے بارے میں علما کے تین مذہب ہیں:
① ضعیف روایات قطعاً قابل قبول نہیں ہیں نہ احکام میں اور نہ ترغیب و ترہیب یا فضائل میں ۔
② ضعیف روایات پر عمل کرنا مطلقاً جائز ہے یہ علامہ سیوطی وغیرہ کا مذہب ہے۔
③ ضعیف روایات پر چند شرائط کے ساتھ عمل کیا جائے ۔ اسی طرح ضعیف روایت کو نقل کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں۔
ضعیف روایت کو مطلقا نہ لینا یہ محققین علما کا مذہب ہے مثلاً امام بخاری ، امام مسلم ،یحیی بن معین ، ابوبکر بن العربی، ابو شامہ المقدسی، ابن حزم، ابن تیمیہ، احمد شاکر اور علامہ البانی وغیر ہم ۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ولم يقل أحد من الأئمة إنه يجوز أن يجعل الشي واجباً أو مستحباً بحديث ضعيف ، ومن قال هذا فقد خالف الإجما ع –
ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہوسکتا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی ۔ (قاعدة جليلة في التوسل والوسیلۃ ص۸۲)
✿الحاصل پہلا مذہب ہی راجح اور قوی ہے کیونکہ کسی امر کا مستحب ہونا بھی ایک شرعی امر ہے لہذا ضعیف روایات سے استحباب ثابت نہیں ہوتا البتہ ضعیف راوی کی روایت بطور استشہاد پیش کی جاسکتی ہے۔ مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ محققین کی اکثریت ضعیف روایات کو بطور حجت یا بطور ترغیب و ترہیب پیش کرنے کی مخالف ہے اور ان جمہور کی تائید دلائل سے بھی ہوتی ہے۔