بعض لوگ فضائل میں (جب مرضی کے مطابق ہوں تو) ضعیف روایات کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان پر عمل کے قائل و فاعل ہیں لیکن محققین کا ایک گروہ ضعیف حدیث پر مطلقاً عمل نہ کرنے کے قاعل اور فاعل ہیں یعنی احکام و فضائل میں ان کے نزدیک ضعیف حدیث ناقابل عمل ہے۔
◈ جمال الدین قاسمی (شامی)نے ضعیف حدیث کے بارے میں پہلا مسلک یہ نقل کیا ہے کہ :
”احکام ہوں یا فضائل، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اسے ابن سید الناس نے عیون الاثر میں ابن معین سے نقل کیا ہے، اور (سخاوی نے ) فتح المغیث میں ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے اور ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم کا یہی مسلک ہے صحیح بخاری کی شرط اس پر دلالت کرتی ہے، امام مسلم نے ضعیف حدیث کے راویوں پر سخت تنقید کی ہے، دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں ضعیف روایات میں سے ایک روایت بھی فضائل و مناقب میں نقل نہیں کی۔ “ [قواعد التحديث ص 113، الحديث حضرو : 4 ص7 ]
◈ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مرسل روایات کو سننے کے ہی قائل نہ تھے [ديكهئے مقدمه صحيح مسلم ح : 21 والنكت على كتاب ابن الصلاح 553/2]
معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ضعیف حدیث کو فضائل میں بھی حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں :
كان ماروي الضعيف ومالم يروفي الحكم سيان
” گویا کہ ضعیف جو روایت بیان کرے اور جس روایت کا وجود ہی نہ ہو، وہ دونوں حکم میں ایک برابر ہیں۔ “ [كتاب المجروحين : 328/1 ترجمة سعيد بن زياد بن قائد ]
◈ مروان (بن محمد الطاطری)کہتے ہیں کہ میں نے (امام) لیث بن سعد (المصری) سے کہا:
”آپ عصر کے بعد کیوں سو جاتے ہیں جبکہ ابن لھیعہ نے ہمیں عن عقيل عن مكحول عن النبى صلى الله عليه وسلم کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ : جو شخص عصر کے بعد سو جائے پھر اس کی عقل زائل ہو جائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔
لیث بن سعد نے جواب دیا : لا أدع ما ينفعني بحديث ابن لهيعة عن عقيل مجھے جس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے، میں اسے ابن لھیعہ کی عقیل سے حدیث کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ “ [الكامل لابن عدي : 1463/4 اوسنده صحيح ]
تنبیہ : ابن لھیعہ ضعیف بعد اختلاط و مدلس ہے اور یہ سند مرسل ہے لہٰذا ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی فرماتے ہیں کہ :
ولا فرق فى العمل بالحديث فى الأحكام أوفي الفضائل إذ الكل شرع
” احکام ہوں یا فضائل، ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب (اعمال) شریعت ہیں۔“ [ تبيين العجب بماور دفي فضائل رجب ص 73]
◈ جمال الدین قاسمی (شامی)نے ضعیف حدیث کے بارے میں پہلا مسلک یہ نقل کیا ہے کہ :
”احکام ہوں یا فضائل، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اسے ابن سید الناس نے عیون الاثر میں ابن معین سے نقل کیا ہے، اور (سخاوی نے ) فتح المغیث میں ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے اور ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم کا یہی مسلک ہے صحیح بخاری کی شرط اس پر دلالت کرتی ہے، امام مسلم نے ضعیف حدیث کے راویوں پر سخت تنقید کی ہے، دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں ضعیف روایات میں سے ایک روایت بھی فضائل و مناقب میں نقل نہیں کی۔ “ [قواعد التحديث ص 113، الحديث حضرو : 4 ص7 ]
◈ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مرسل روایات کو سننے کے ہی قائل نہ تھے [ديكهئے مقدمه صحيح مسلم ح : 21 والنكت على كتاب ابن الصلاح 553/2]
معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ضعیف حدیث کو فضائل میں بھی حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں :
كان ماروي الضعيف ومالم يروفي الحكم سيان
” گویا کہ ضعیف جو روایت بیان کرے اور جس روایت کا وجود ہی نہ ہو، وہ دونوں حکم میں ایک برابر ہیں۔ “ [كتاب المجروحين : 328/1 ترجمة سعيد بن زياد بن قائد ]
◈ مروان (بن محمد الطاطری)کہتے ہیں کہ میں نے (امام) لیث بن سعد (المصری) سے کہا:
”آپ عصر کے بعد کیوں سو جاتے ہیں جبکہ ابن لھیعہ نے ہمیں عن عقيل عن مكحول عن النبى صلى الله عليه وسلم کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ : جو شخص عصر کے بعد سو جائے پھر اس کی عقل زائل ہو جائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔
لیث بن سعد نے جواب دیا : لا أدع ما ينفعني بحديث ابن لهيعة عن عقيل مجھے جس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے، میں اسے ابن لھیعہ کی عقیل سے حدیث کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ “ [الكامل لابن عدي : 1463/4 اوسنده صحيح ]
تنبیہ : ابن لھیعہ ضعیف بعد اختلاط و مدلس ہے اور یہ سند مرسل ہے لہٰذا ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی فرماتے ہیں کہ :
ولا فرق فى العمل بالحديث فى الأحكام أوفي الفضائل إذ الكل شرع
” احکام ہوں یا فضائل، ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب (اعمال) شریعت ہیں۔“ [ تبيين العجب بماور دفي فضائل رجب ص 73]