ابن شاہین نے السنۃ میں۔ بغوی نے اپنی تفسیر میں اور ابن عساکر نے ابن عمر کی زبانی تحریر کیا ہے کہ میں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر تھا اور صدیق اکبر ایک ایسا لبادہ جس کے کناروں کو اٹھا کر سینہ پر کانٹوں سے اٹکا لیا تھا، پہنے ہوئے تھے۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئے اور کہا یا رسول اللہ ! آج ابوبکر رضی اللہ عنہ سینہ پر کانٹوں کا لبادہ کیوں اٹکائے ہوئے ہیں؟ ارشاد گرامی ہوا، انھوں نے اپنی تمام دولت مجھ پر خرچ کر دی ہے تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے ان کو سلام کہا ہے اور دریافت کیا ہے، اے ابو بکر ! تم اس غربت کی حالت میں ہم سے خوش ہو یا ناراض؟ اس پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اپنے پرور دگار سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہوں میں تو اس سے راضی ہوں، خوش ہوں اور بہت مسرور ہوں۔ اس قسم کی اکثر احادیث مروی ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال و سرمایہ اسلام کی راہ میں پیش کر دیا۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کیا ہے کہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک دن جبریل علیہ السلام دری کی طرح کا ایک کپڑا اپنے سینہ پرڈالے ہوئے آئے جس پر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جبریل یہ کیا حالت ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ اللہ نے حکم دیا ہے تمام فرشتے اسی طرح کا لباس پہن لیں جیسا کہ صدیق اکبر پہنے ہوئے ہیں۔ اس حدیث کے متعلق ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس کے راوی ضعیف ہیں اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس حدیث کو لوگ قبل ازیں بھی بیان کرتے۔ غرضکہ اس روایت سے اعراض کرنا ہی مناسب ہے۔
تحقیق الحدیث :
امام سیوطی نے خود اس کو شدید ضعیف کہا ہے، سیوطی خود ضعف پرست ہیں تو جس کو سیوطی سخت ضعیف کہیں اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ابن عساکر (51/13) و البيهقي في المحاسن والمساوی ص (56) اس کی تمام سندات ضعيف ہیں۔ [تاريخ الخلفاء ص 36]