صدقہ فطر کسے کہتے ہیں
یہ روزمرہ کی خوراک میں سے ایک صاع ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جائے گا ۔
صدقہ فطر سے مراد ماہ رمضان کے اختتام پر نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
فرض رسول الله زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے غلام ، آزاد ، مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے سب پر صدقہ فطر فرض کیا ہے۔ ایک صاع (ٹوپا یعنی تقریبا اڑھائی کلو) کھجوروں سے اور ایک صاع جو سے۔ اور اس کے متعلق حکم دیا کہ یہ فطرانہ نماز (عید) کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے ۔“
[بخاري: 1503 ، كتاب الزكاة: باب فرض صدقة الفطر ، مسلم: 984 ، أبو داود: 1611 ، نسائي: 48/5 ، ابن ماجة: 1826 ، ترمذي: 676 ، موطا: 284/1 ، أحمد: 137/2 ، دارمي: 392/1 ، شرح معاني الآثار: 320/1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے۔
(ابن منذرؒ) انہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
[نيل الأوطار: 143/3]
(شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) واجب ہے فرض نہیں کیونکہ دلیلِ قطعی سے ثابت نہیں ۔ (مزید امام ابو حنیفہؒ کا موقف یہ ہے کہ زکوٰۃ الفطر اس وقت واجب ہے جب انسان اتنے مال کا مالک ہو جو نصاب کو پہنچ جائے حالانکہ اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ، لٰہذا جس کے پاس گھر کے خوردونوش سے زائد غلہ موجود ہو وہ صدقہ فطر ادا کر دے)۔
[الحاوى: 384/3 ، الأم: 84/2 ، بدائع الصنائع: 74/2 ، المبسوط: 108/3 ، المغني: 89/3]
حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت سے فرضیت کے نسخ کا دعوی کیا جاتا ہے اس میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں کہ جس سے نسخ کا دعوی کیا جا سکے جیسا کہ اُس روایت میں ہے کہ :
امرنا رسول الله بصدقة الفطر قبل أن تنزل الزكاة فلما نزلت الزكاة لم يامرنا ولم ينهنا ونحن نفعله
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ (کا حکم ) نازل ہونے سے پہلے ہمیں صدقہ فطر کا حکم دیا لیکن جب زکوٰۃ (کا حکم) نازل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ (اس سے ) ہمیں روکا اور ہم صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 2350 ، ابن ماجة: 1828 ، كتاب الزكاة: باب صدقة الفطر ، نسائي: 49/5 ، حاكم: 410/1 ، بيهقي: 159/4]
اس حدیث میں محض ایک زائد فرض کا ذکر ہے جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا فرض منسوخ ہو گیا ہے۔