صدقہ فطرانہ ادا کرنے کا صحیح وقت
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال :

فطرانہ یعنی صدقہ عید الفطر نماز عید سے کتنے روز پہلے دیا جا سکتا ہے اور کیا پہلے ادا کرنا ضروری ہے ؟

جواب :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نماز عید سے پہلے نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے :
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد، والحر، والذكر، والانثى، والصغير، والكبير من المسلمين، وامر بها ان تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة [بخاري، كتاب الزكوة : باب صدقة الفطر 1503، مسلم 984 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے اور لوگوں کو نماز عید کی طرف نکلنے سے پہلے اس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے نکالنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر نکال دیتے تھے۔
جیسا کہ صحیح روایت میں مذکور ہے :
وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم او يومين
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر دے دیتے تھے۔“ [بخاري، كتاب الزكوة : باب صدقة الفطر على الحر والمملوك 1511 ]
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے :
ان ابن عمر رضي الله عنهما كان يبعث زكوٰة الفطر الي الذى يجمع عنده قبل الفطر بيومين او ثلاثة [فتح الباري 376/3 ]
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر سے دو یا تین دن پہلے صدقہ فطر اس آدی کی طرف بھیج دیتے تھے جو صدقہ جمع کرتا تھا۔ “
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صدقہ فطر جمع کرنے کی ذمہ داری لگائی اور شیطان تین راتیں مسلسل ان کے جمع کردہ ڈھیر سے چوری کے لئے آتا رہا، بالآخر اس نے تیسری مرتبہ آیت الکرسی بتا کر جان چھڑائی۔ [بخاري، كتاب الوكالة : باب اذ و كل رجلا فترك الوكيل شيئا2311 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ويدل علٰي ذٰلك ايضا ما اخرجه البخاري فى الوكالة وغيرها عن أبى هريرة قال وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان . . . الحديث وفيه انه امسك الشيطان ثلاث ليال وهو يأخذ من التمر فدل علٰي انهم كانوا يعجلونها [فتح الباري 376/3۔ 377 ]
”نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر نکالنے پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب الوکالۃ“ وغیرہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کی حفاظت پر مامور فرمایا۔ اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے تین راتیں مسلسل شیطان کو کھجوریں چوری کرتے ہوئے پکڑا۔ اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صدقہ فطر نکالنے میں جلدی کرتے تھے۔“ لہٰذا نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر ادا کرنا زیادہ مناسب اور صحیح ہے۔ والله اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے