صحیفہ ہمام حدیث کی حفاظت کا اولین ثبوت

مستشرقین کا اعتراض

مستشرقین اور مخالفین اسلام پچھلے دو سو سال سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ احادیث کی کتابت پہلی صدی ہجری میں نہیں ہوئی بلکہ یہ احادیث تیسری صدی ہجری میں گھڑی گئی ہیں۔ ان کے اس اعتراض کو ہندوستان کے منکرین حدیث نے بھی مختلف انداز میں دہرا کر پیش کیا، اور اس بنیاد پر ایران و عجم کے قصے کہانیاں گھڑ لیں۔

علمائے اسلام کا جواب

علمائے اسلام نے ان اعتراضات کے معقول اور مدلل جوابات دیے، لیکن مخالفین نے یہ اعتراضات دہرانا بند نہیں کیے۔ ان اعتراضات کا ایک مضبوط جواب "صحیفہ ہمام بن منبہ” کے ذریعے پیش کیا گیا۔

صحیفہ ہمام بن منبہ: پہلی صدی ہجری کی کتابت حدیث کا ثبوت

صحیفہ ہمام کا تعارف:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ رحمہ اللہ یمن کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث سن کر انہیں ایک صحیفے میں جمع کیا۔ یہ مجموعہ اصل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تالیف تھا، لیکن کتابت کی نسبت سے ہمام بن منبہ کی طرف منسوب ہوا اور "صحیفہ ہمام بن منبہ” کے نام سے مشہور ہوا۔

صحیفہ کی اہمیت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا انتقال 58 ہجری میں ہوا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صحیفہ ان کی وفات سے پہلے ہی تحریر ہو چکا تھا۔

ڈاکٹر حمیداللہ کی تحقیق:

مشہور محقق ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ نے 1933ء میں اس صحیفے کا ایک قلمی نسخہ برلن کی لائبریری سے اور دوسرا دمشق کی لائبریری سے دریافت کیا۔ دونوں نسخوں کا تقابل کرنے کے بعد، انہوں نے 1955ء میں حیدرآباد دکن سے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔

صحیفہ اور دیگر کتب حدیث میں یکسانیت:

یہ صحیفہ مسند احمد بن حنبل میں بعینہ اسی طرح موجود ہے جیسے کہ برلن اور دمشق کے قلمی نسخوں میں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 240ھ) کے زمانے اور صحیفہ ہمام کے درمیان تقریباً 200 سال کا فاصلہ ہے، لیکن دونوں میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کتابت حدیث کا سلسلہ کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوا۔

صحیفہ ہمام کی احادیث کی منتقلی

اسناد کا تسلسل:

ہمام بن منبہ نے اپنے استاد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث کا یہ مجموعہ اپنے شاگردوں تک منتقل کیا۔ ان کے مشہور شاگرد معمر بن راشد یمنی ہیں، جنہوں نے یہ صحیفہ بغیر کسی کمی بیشی کے اپنے شاگردوں تک پہنچایا۔ معمر کے شاگرد عبدالرزاق بن ہمام نے اپنی مشہور تصنیف "المصنف” میں بھی اس صحیفے کی احادیث نقل کیں۔

امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین کی خدمات:

امام احمد بن حنبل نے عبدالرزاق سے احادیث اخذ کر کے انہیں اپنی مشہور تصنیف "مسند احمد” میں شامل کیا۔ امام بخاری اور امام مسلم نے بھی ان احادیث کو اپنی کتب میں شامل کیا۔ یوں یہ احادیث نسل در نسل محفوظ رہیں۔

مخطوطات کی تفصیلات

مخطوطہ برلن:

برلن کے مخطوطے کا نمبر "1797, 1384 WE” ہے۔ یہ مخطوطہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے برلن کے سرکاری کتب خانے میں محفوظ تھا اور بعد میں تیوبنگن منتقل کیا گیا۔ اس مخطوطے میں آٹھ ورق شامل ہیں اور ہر صفحے پر 19 سطریں موجود ہیں۔ اس کی کتابت 12ویں صدی ہجری کی ہے۔

مخطوطہ دمشق:

دمشق کا مخطوطہ مکمل اور زیادہ قدیم ہے۔ یہ چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے اور متعدد علماء نے اس پر درس دیا ہے۔ اس مخطوطے پر کئی اسناد درج ہیں جو اس کی صحت اور حفاظت کا ثبوت ہیں۔

تدوین حدیث پر صحیفہ ہمام کا اثر

محدثین کا دیانت دارانہ رویہ:

محدثین نے صحیفہ ہمام کو محفوظ رکھنے میں غیر معمولی دیانت داری کا مظاہرہ کیا۔ مسند احمد اور بخاری و مسلم جیسی کتب میں اس صحیفے کی احادیث کا شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ کتب حدیث کی تدوین اور حفاظت انتہائی قابل اعتماد طریقے سے کی گئی۔

احادیث کا مختلف اسناد سے روایت ہونا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی روایت کیا، اور ان میں سے ہر روایت کا سند مختلف تھا۔ یہ تمام روایات ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔

نتیجہ: حدیث کی حفاظت کا تاریخی ثبوت

صحیفہ ہمام بن منبہ کی موجودگی اور اس کی حفاظت کے شواہد ثابت کرتے ہیں کہ احادیث تیسری یا چوتھی صدی میں گھڑی نہیں گئیں بلکہ یہ عہد نبوی اور عہد صحابہ سے ہی محفوظ طریقے سے منتقل ہوتی آئی ہیں۔ مستشرقین اور منکرین حدیث کے اعتراضات کو اس تاریخی ثبوت کے ذریعے مسترد کیا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے