صبر کی فضیلت اور علاج کا اختیار
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جس میں صبر کی طاقت ہو اس کے لیے یہی افضل ہے کہ وہ اللہ کے سپرد کر دے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
هذه المرأة السوداء أنت النبى صلى الله عليه وسلم فـقـالـت إني أصرع وإني أتكشف فادع الله لى قال: إن شئت صبرت ولك الجنة وإن شئت دعوت الله أن يعافيك فقالت أصبر فقالت إني أتكشف فادع الله لي أن لا أتكشف فدعا لها
”ایک سیاہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں ۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی ۔ پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی ۔“
[بخاري: 5652 ، كتاب المرضى: باب فضل من يصرع من الريح ، مسلم: 2576 ، احمد: 346/1]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اُمت میں سے ستر ہزار (افراد) بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دیے جائیں گے اور وہ لوگ وہ ہوں گے:
هم الذين لا يسـتـرقـون ولا يتطيرون ولا يكتوون وعلى ربهم يتو كلون
”جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے ، بدشگونی نہیں پکڑتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں ۔“
[بخاري: 5705 ، كتاب الطب: باب من اكتوى أو كوى غيره وفضل من لم يكتو ، مسلم: 220 ، ترمذي: 2446]
یاد رہے کہ ان احادیث اور گذشتہ احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حدیث میں جو دم چھوڑنے کی مدح و تعریف ہے اس سے مراد کفار کا کلام ، مجہول دم ، غیر عربی ، جس کا معنی معلوم نہ ہو یا کفر کے معنی کے قریب ہونے کی وجہ سے مذموم یا مکروہ دم ہے ۔ علاوہ ازیں قرآنی آیات اور معروف اذکار کے ساتھ دم ممنوع نہیں بلکہ مسنون ہے ۔
[شرح مسلم للنووى: 425/7]
(شوکانیؒ) یہی پسندیدہ جواب ہے ۔
[نيل الأوطار: 286/5]
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے ہر حال میں دوا لینا ضروری اور افضل ہے ۔ خواہ (آدمی میں ) صبر کی طاقت ہو یا نہ ہو ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1