سوال:
کیا شیاطین عالم الغیب ہیں ؟
جواب :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فى طائفة من اصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وارسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين، فقالوا: ما لكم؟ فقالوا: حيل بيننا وبين خبر السماء، وارسلت علينا الشهب، قال: ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا أمر حدث، فاضربوا مشارق الارض ومغاربها، فانظروا ما هذا الامر الذى حدث، فانطلقوا، فضربوا مشارق الارض ومغاربها ينظرون ما هذا الامر الذى حال بينهم وبين خبر السماء، قال: فانطلق الذين توجهوا نحو تهامة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنخلة وهو عامد إلى سوق عكاظ، وهو يصلي باصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن تسمعوا له، فقالوا: هذا الذى حال بينكم وبين خبر السماء، فهنالك رجعوا إلى قومهم، فقالوا: يا قومنا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ ، فأنزل الله عز وجل على نبيه صلى الله عليه وسلم:قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ [ سورة الجن 1 ] وإنما اوحي إليه قول الجن.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کی معیت میں عکاظ کے بازار کی طرف گئے، درآنحالیکہ شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ حائل ہو گئی اور شیاطین پر آگ کے شعلے پھینکے گئے۔ شیطان واپس (زمین پر) آ گئے تو دوسرے شیاطین نے پوچھا: تمھیں کیا ہوا ہے؟ ( کیوں واپس آگئے ہو) تو انھوں نے کہا: ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ بن گئی ہے اور ہم پر آگ کے شعلے برسائے گئے (جس کی وجہ سے ہم واپس آگئے ہیں) تو دوسرے شیاطین (جو زمین پر تھے) نے کہا: کسی عظیم واقعہ کی بنا پر آسمانی خبروں اور تمھارے درمیان رکاوٹ حائل ہوئی ہے، تم مشارق و مغارب میں پھیل جاؤ اور دیکھو کیا واقعہ درپیش ہوا ہے۔ راوی نے کہا: جن شیاطین نے تہامہ کی طرف رخ کیا، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نخلہ مقام پر آئے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکاظ کے بازار کو جانے کا ارادہ تھا اور آپ اپنے اصحاب کو فجر کی نماز پڑھارہے تھے۔ جب شیاطین نے قرآن مجید سنا تو کان لگا لیے اور کہا: ہاں میں قرآن ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنا ہے۔ پھر وہ وہاں سے اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾
”بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب) ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے۔ “ [ الجن: 1 , 2]
اللہ تعالی نے اپنے نبی پر یہ آیت: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ [الجن:1] نازل فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنات کا قول وحی کیا گیا۔
تو اس حدیث مبارک سے بداہتا واضح ہوتا ہے کہ شیاطین و جنات عالم الغیب نہیں ہوتے، اسی لیے تو کہہ رہے تھے کہ کوئی عظیم واقعہ رونما ہوا ہے، اس کا سراغ لگاؤ۔ اگر عالم الغیب ہوتے تو وہ پہلے ہی سے جانتے ہوتے اور یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، رقم الحديث 733]