شہرت، مخالف جنس اور مخصوص لباس پہننے کی ممانعت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نہ ہی شہرت کا لباس پہنے اور نہ ہی ایسا لباس جو عورتوں کے ساتھ خاص ہو اور نہ ہی عورتیں مردوں کا خاص لباس پہنیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من لبس ثوب شهرة فى الدنيا ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيامة
”جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے ۔“
[صحيح ابن ماجة: 2905 ، كتاب اللباس: باب من لبس شهرة من الثياب ، ابن ماجة: 3606 ، ابو داود: 4069 ، احمد: 139/2]
شہرت کے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو عام لوگوں کے لباسوں کے رنگوں سے مختلف رنگ کا ہونے کی وجہ سے شہرت کا باعث بنے۔ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھیں اور اسے پہنے والا تعجب و تکبر میں پڑ جائے۔
یاد رہے کہ یہ حدیث نفیس و عمدہ لباس پہننے کے مخالف نہیں بلکہ عوام الناس کے لباس سے مختلف ، تکبر اور فخر و ریاء کے لیے پہنے گئے لباس کی ممانعت میں واضح دلیل نہیں ۔
[نيل الأوطار: 596/1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی اس بات کی تائید کرتا ہے:
لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال حبة من خر دل من كبر
”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا ۔“
[صحيح: الصحيحة: 1626 ، ترمذي: 1999 ، كتاب البر والصلة: باب ما جاء فى الكبر ، احمد: 451/1 ، ابو عوانة: 31/1 ، شرح السنة: 535/6 ، طبراني كبير: 10533/10 ، حاكم: 26/1]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رسول الله لعن الرجل يلبس لبس المرأة والمرأة تلبس لبس الرجل
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں جیسا لباس پہننے والے مرد اور مردوں جیسا لباس پہننے والی عورت پر لعنت کی ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3454 ، كتاب اللباس: باب فى لباس النساء ، ابو داود: 4098 ، احمد: 325/2 ، ابن حبان: 1455 – الموارد ، حاكم: 194/4]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے ۔“
[بخاري: 5885 ، كتاب اللباس: باب المتشبهين بالنساء والمتشبهات بالرجال]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1