شوہر اپنی نئی کنواری دلہن کے پاس سات دن جبکہ مطلقہ یا بیوہ کے پاس تین دن ٹھہرے
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من السنة إذا تزوج الـرجــل البكر على الثيب
”مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ کو بیاہ کر لائے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے ۔“
[بخاري: 5214 ، كتاب النكاح: باب إذا تزوج الثيب على البكر ، مسلم: 1461]
➋ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین روز قیام کیا (کیونکہ وہ شوہر دیدہ خاتون تھیں ) ۔
[مسلم: 1460 ، كتاب الرضاع: باب قدر ما تستحقه البكر والثيب ، موطا: 529/2 ، أحمد: 292/6 ، دارمي: 144/2 ، ابو داود: 2122 ، ابن ماجة: 1917 ، شرح معاني الآثار: 28/3 ، أبو يعلى: 429/12 ، دارقطني: 484/3 ، الحلية لأبي نعيم: 95/7 ، بيهقي: 300/7]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کے پاس تین روز قیام فرمایا اور وہ شوہر دیدہ تھیں ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1863 ، كتاب النكاح: باب فى المقام عند البكر ، ابو داود: 2123 ، أحمد: 99/3]
معلوم ہوا کہ نئی دلہن اگر کنواری ہو تو اس کے پاس سات دن اور اگر شوہر دیدہ ہو تو اس کے پاس تین روز قیام کیا جائے گا۔
(جمہور ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(احناف) شوہر دیدہ اور کنواری دونوں کے پاس تین دن قیام کیا جائے گا۔ (ان کا کہنا ہے کہ کنواری کے پاس سات دن اور شوہر دیدہ کے پاس تین دن عدل کے منافی ہے ) ۔
[الأم: 110/5 ، المبسوط: 218/5 ، كشاف القناع: 207/5 ، بداية المجتهد: 56/2 ، نيل الأوطار: 307/4 ، شرح مسلم للنووي: 302/5 ، فتح البارى: 394/10]
احناف کا موقف گذشته واضح احادیث کے خلاف ہے۔ نیز کنواری کے لیے سات دن اس لیے مقرر کیے گئے تا کہ اس کی اجنبیت دور ہو جائے اور اس کا دل لگ جائے جبکہ شوہر دیدہ کے لیے تین روز اس لیے مقرر کیے گئے کیونکہ وہ جلد مانوس ہو جاتی ہے اور ماحول میں گھل مل جاتی ہے۔