شعیہ کا اپنے آئمہ سے متعلق معصوم عن الخطاء ہونے کا عقیدہ
”یہ مسئلہ متفق علیہ ہے یا اختلافی؟
اس کا حل خود شیعہ علماء کے اقوال سے پیش کرتے ہیں:
شیعہ عالم مجلسی ہے:
”جان لو! شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے کہ ان کے ائمہ ہر چھوٹے بڑے گناہ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا ۔ نہ عمداََ نہ بھول کر ، نہ کسی تاویل میں غلطی سے۔ اور نہ ان کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلانے سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے۔“
[بحار الأنوار: 211/25 – ح: 24 ، باب عصمتهم و لزوم وعصمة الامام …… ديكهيں: اوائل المقالات: 65 – مرآة العقول: 352/4]
شیعہ علامہ مجلسی کہتا ہے:
”بیشک ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیہم ہر چھوٹے بڑے ، عمداً اور سہواََ گناہ سے معصوم ہیں، نبوت اور امامت ملنے سے قبل بھی اور بعد میں بھی۔ بلکہ وہ اپنی ولادت سے لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے تک معصوم ہیں ۔ اس مسئلے میں صرف صدوق محمد بن بابویہ اور اس کے استاد ابن الولید قدس اللہ رحمہا کا اختلاف ہے۔ انہوں نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ اللہ کسی نبی یا امام کو کوئی بات بھلا دے۔ وہ سہو جو شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے اس کو جائز قرار نہیں دیا۔ اور شائد کہ ان کا اختلاف اجماع کے لئے مضر نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی معروف حسب و نسب والے شیعہ ہیں ۔“
[بحار الأنوار: 108/17 ، باب سهوه و نومه عن الصلاة] “
شیعہ اثنا عشریہ کا ایمان ہے کہ جن لوگوں کے متعلق وہ امامت کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ گناہ ، خطاء ، سھو اور نسیان سے معصوم ہوتے ہیں۔ ایک معاصر شیعہ عالم محمد رضا المظفر کہتا ہے:
”ہمارا عقیدہ ہے کہ امام نبی کی طرح ہوتا ہے۔ اور واجب یہ ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور بچپن سے لیکر موت تک ، عمداََ او سھواََ تمام رذائل اور فواحش سے پاک سے اور محفوظ ہو۔ اور یہ بھی واجب ہے کہ وہ سھو ، خطا اور نسیان سے معصوم ہو ۔ “
[عقائد الاماميه: 104]
یہ دعوی دو باتوں میں سے ایک ہے: یا تو یہ دعوی سچا ہو گا یا پھر جھوٹا ہو گا۔
اس کی معلومات صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہیں جب ان لوگوں کے حالات زندگی معلوم کر لئے جائیں جن کے بارے میں عصمت کا عقیدہ رکھا جاتا ہے۔
اس غرض کیلئے ہم بحث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شروع کرتے ہیں؟ اور کہتے ہیں کہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دس مواقف امامیہ کے دعویٰ کے تناقض میں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اور امام بنایا ۔ اس وقت صحابہ کرام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے آپ نے کیا کیا؟
آپ نے یہ کیا کہ:
➊ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔
➋ ساری زندگی ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔
➌ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قیدی خاتون سے شادی کی ۔ شیعہ کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہر کام باطل تھا۔ تو پھر مرتدین سے آپ کی جنگیں بھی باطل ہوئیں۔ ان جنگوں میں جو قیدی ہاتھ آئے وہ غیر شرعی ہوئے ، انہیں اپنا لینا جائز نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود بنی حنیفہ کی قیدی خاتون حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لی اور اس ان کا بیٹا محمد پیدا ہوا جسے محمد بن حنیفہ کہا جاتا ہے۔
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کا اقرار کیا۔
➎ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور ساری زندگی ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔
➏ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شکر کے ساتھ بلاد فارس جانے سے روکا جیسا نہج البلاغہ میں ہے۔
➐ اپنے تین بیٹوں کے نام خلفائے ثلاثہ کے نام پر رکھے۔ ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم ۔ یہ اہل سنت اور شیعہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔
➑ اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کی ، جیسا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے۔
➒ آپ نے اس شوری کو قبول کیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے بنائی تھی۔
➓ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور ساری زندگی ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔
یہ دس اقوال اور اعمال ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود کئے یا ارشاد فرمائے۔
اگر آپ معصوم تھے اور یہ تمام باتیں درست ہیں تو امامت کا دعوی باطل ہوا۔ کیونکہ معصوم نہ غلط کام کرتا ہے نہ غلط بات کہتا ہے اور ہ ہی کفریہ بات کہتا ہے یا اسے برقرار رکھتا ہے۔
اگر ایسا کرنا خطا تھا تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ امام نہ ہوئے۔ اس لئے کہ تمہارے نزدیک امام معصوم من الخطا ہوتا ہے۔ اور شیعہ کے نزدیک امامت کا انکار کرنا یا کسی نا اہل کی امامت کا اقرار کرنا کفر ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ معاذ الله . اپنے ان اعمال سے اس کا اقرار کر رہے ہیں۔ (پھر ان کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟)
ان واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرگز یہ عقیدہ نہ رکھتے تھے کہ وہ منصوب من اللہ امام ہیں۔ اور یہ کہ بیشک خلافت کا معاملہ ان کے درمیان مشورہ سے ہوتا ہے۔ یہ ایک طبعی بات ہے۔ معاذ اللہ کہ آپ اللہ کی طرف سے متعین امام ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوں اور پھر اس کا اعلان کرنے سے عاجز آ جائیں اور مخالفین کا اقرار کر کے ان کی بیعت کر لیں۔ اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور اپنے بیٹوں کے نام ان کے ناموں پر رکھیں اور بیسں سال سے زائد عرصہ تک یہ تماشہ دیکھتے اور کفر کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ جیسا کہ امامیہ کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ اور اپنی جان بچانے کے لئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ یہ تو کسی ادنی آدمی کے ساتھ بھی مناسب نہیں۔ تو پھر امام منصوب من الله یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ امام کے ساتھ کیسے مناسب ہو سکتا ہے؟
جس کے تعین کا مقصد ہی دین کی اقامت اور اللہ کی خلافت اور نیابت ہو۔ جیسا کہ تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔
آپ بہترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شہسوارانِ اسلام میں ایک تھے۔ جنہوں نے اسلام کی خاطر خونریز جنگیں لڑیں۔ حتی کہ اسلام کا پرچم بلند ہوا۔ اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر آپ دیکھتے رہے اور دین اسلام کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ جیسا کہ تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔ بلکہ آپ دینِ اسلام کو روندنے میں ان لوگوں کا ساتھ دیتے رہے۔ کیونکہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے انکار نہیں کیا تھا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خلافت سے تنازل:
پھر حسن بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب امام دوم نے خلافت سے تنازل اختیار کرتے ہوئے اسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا ۔ حالانکہ آپ کی قیادت میں دسیوں ہزار چاہتے والے لڑاکے (ماہر فوجی دستے) موجود تھے۔ اگر آپ معصوم تھے اور امامت معاویہ کے سپر د کر دی اور امامت پر ایک کافر مشخص (تمہارے عقیدہ کے مطابق) کی حکمرانی پر راضی ہو گئے تو یہ فعل عصمت اور امامت کے خلاف ہے۔ اور اگر معصوم نہ تھے تو پھر امام بھی نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ تمہارے نزدیک امام کے لئے عصمت شرط ہے۔
آٹھواں امام اور مامون کی ولایت کی قبولیت:
تمہارے نزدیک تمہارے آٹھویں امام علی بن موسی الرضا رحمہ اللہ ہے یہ اس بات پر راضی ہو جاتے ہیں کہ وہ مامون کے ولی عہد بن جائیں۔
امامت غصب کرنے والے کی نیابت قبول کرنا اس کی خلافت کی مشروعیت کا اعتراف ہے۔ امامت غصب کرنے والے کی مشروعیت کا اعتراف کرنا تمہارے نزدیک کفر ہے۔ اگر آپ امام معصوم تھے، تو آپ کا فعل مامون کی خلافت کی صحت پر دلیل ہے ، (جب کہ تمہارے قواعد کی رو سے) یہ عمل عقیدہ امامت کے خلاف ہے۔
اگر آپ امام معصوم نہیں تھے تو پھر تمہارے مذہب کے مطابق امام نہ ہوئے۔ کیونکہ تمہارے مذہب میں امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ جب تمہارے ائمہ میں سے کسی ایک کی امامت میں خلل واقع ہوتا ہے تو پورا نظریہ امامت ہی ختم ہو جاتا ہے۔
یہ صرف چند ایک اشارے تھے۔ وگرنہ اس مذہب میں تناقض پر اتنے دلائل ہیں کہ ان کا شمار کرنا ناممکن ہے۔
عاقل کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے سپرد کر دے جو اسے اتباع حق سے محروم کر دیں۔ یہ زندگانی بہت مختصر ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا اور حساب دینا بڑا مشکل ہے۔
اس پر سزا و جزا کا مسئلہ بھی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اتباع حق کی توفیق دے، اور باطل سے محفوظ و مامون رکھے ، آمین یا رب العالمین