شرک کے چور دروازے: نجومی اور پامسٹ کے پاس جانا

نجومی اور پامسٹ کے پاس جانا

نجومی :

علم نجوم کے جاننے والے کو کہا جاتا ہے۔

علم نجوم :

اور علم نجوم یہ ہے کہ احوال فلکیہ کے ذریعے حوادث ارضیہ پر استدلال کیا جائے۔
مجموع الفتاوى : ١٨١/٣٥

مثلاً : بارش کے برسنے ، ہواؤں کے چلنے ، گرمی اور سردی کے ظہور اور اس قسم کے دیگر اُمور کی اطلاع ، نجومیوں کا یہ زعم باطل ہے کہ وہ ستاروں کی گردش اور ان کے اجتماع و افتراق سے ان باتوں کو معلوم کر لیتے ہیں ، اور نظام ارضی ستاروں کی گردش کے تقاضوں کے مطابق چلتا ہے۔ بلکہ ان کا یہ قول اللہ تعالیٰ کے علم الغیب کے خزانے پر تحکم اور دست درازی کے مترادف ہے، حالانکہ علم نجوم کی یہ قسم علم تاثیر کہلاتی ہے۔
القول المفيد : ١٢٥/٢

كاهن :

فن کہانت جاننے والے کو کہا جاتا ہے۔

فن کہانت :

کہانت ایک فن ہے کہ جس میں علم غیب اور مستقبل کی خبریں بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد وہ خبر ہوتی ہے جو جن ، فرشتوں کے کلام سے چرا کر کاہن کے کان میں ڈال دیتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ فی زمانہ بنسبت دور جاہلیت کے بہت تھوڑے ہیں، کیونکہ اللہ عزوجل نے شہاب ثاقب کے ذریعے آسمانی خبروں کی حفاظت کر دی ہے۔ ایسے لوگ عام طور پر ولایت اور کشف کا دعوی کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کاہن، اخوان الشیاطین ہیں، ولایت سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہے ۔
(تيسير العزيز الحميد، ص : ٤٠٥)

کچھ ایسے ہی نجومی اور کاہن لوگ پامسٹ اور پروفیسروں کے بورڈ لگا کر ’’جو چاہو سو پوچھو یا ہر قسم کی مراد پوری ہوگی‘‘ کے دعوے کرتے ہیں۔ ان سے علاج کروانا اور انہیں قسمت کا حال دریافت کرنے کے لیے ہاتھ دکھانا وغیرہ شرک ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
(مسند احمد : ٤۲۹/۲، رقم: ٩٥٣٦ ـ مستدرك حاكم: ۸/۱)
” جو شخص کسی نجومی اور کاہن کے پاس آیا اور اس کے اقوال کی تصدیق کی تو اس نے محمد ﷺ پر نازل شده (وحی) کا انکار کیا ۔‘‘

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلُ لَهُ صَلوةٌ اربعین لَيْلَة .
(صحيح مسلم، کتاب السلام، رقم: ٥٨٣٢١)
” جو شخص کسی نجومی کے پاس آ کر کوئی بات پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں کی جائیں گی۔“

معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کیا تھا کہ ہمارے بعض افراد کاہنوں کے پاس جاتے ہیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم مت جایا کرو ۔ “
(صحيح مسلم ، کتاب السلام، رقم : ٥٨١٣)

سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جزیرہ عرب کو اللہ تعالیٰ نے شرک سے پاک اور صاف کر دیا ہے ، تاکہ علم نجوم ان کی گمراہی کا سبب بن جائے ۔
(مجمع الزوائد: ١١٤/١٩)

اس حدیث میں واضح طور پر علم نجوم کو شرک قرار دیا گیا ہے ، بلکہ ایک حدیث میں تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جادو کی قسم قرار دیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ النُّجُومِ فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السَّحْرِ زَادَ مَا زَادَ.
(سنن أبو داؤد، رقم : ٣٩٠٥- مسند أحمد، رقم: ٢٨٤١)
’’جس نے علوم نجوم کا ایک باب سیکھا اس نے جادوگری کا ایک باب سیکھ لیا ، اب وہ جتنا چاہے بڑھائے۔“

اور جادوگر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ
(طه: ٦٩)
”جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا ۔“

امام خطابیؓ فرماتے ہیں:
یہ (کاہن) لوگ تیز طرار ، شرارتی ، خبیث النفس اور ناری طبیعتیں رکھنے والی قوم ہے۔ ان کا رابطہ جنوں سے ہوتا ہے اور مختلف واقعات کے متعلق ان سے استفسار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ انہیں کچھ خبریں بتا دیتے ہیں جن کے ذریعے وہ لوگوں کی گمراہی کا سبب بن جاتے ہیں۔
(مغنى المريد الجامع شروح كتاب التوحيد : ١٨٦١/٥)

علامہ قرطبیؒ رقم طراز ہیں :
قانونی محتسب اگر تعزیرات قائم کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ان کاہنوں اور ان کے پاس جانے والوں کو ضرور سزا دینی چاہیے۔ کوئی بھی شخص بعض باتوں میں ان کی صداقت سے قطعاً دھوکے میں نہ آئے، اور نہ ہی اس بات سے دھوکہ کھائے کہ فلاں کاہن اور نجومی تو بڑا مرجع خلائق ہے اور اس کی بڑی علمی شہرت ہے ایسے لوگوں کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ وہ جاہل ہوتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ان کے پاس جانے کی شرعی ممانعت اور وعید شدید موجود ہے ۔
(تيسير العزيز الحميد، ص : ٤٠٧ – توحيد إله العالمين: ٤٥١/١)

نجومی اور پامسٹ نوجوان نسل کی زندگیاں کیسے برباد کرتے ہیں ؟

قارئین کرام ! اپنے معاشرہ میں ان عاملوں، نجومیوں اور کاہنوں کو دیکھیں یہ نوجوان نسل کی زندگیاں برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ”ماہنامہ خواتین میگزین ‘‘ لاہور جون ۲۰۰۴ء شمارہ نمبر ۶، جلد ۹ موجود ہے۔ اس میں جناب عبید اللہ طارق ڈار صاحب ، عنوان ”جھوٹے عامل نوجوان نسل کی زندگیاں کیسے برباد کرتے ہیں؟ حیرت انگیز انکشافات پر مبنی خصوصی رپورٹ“ کے تحت رقم طراز ہیں کہ:
”ہمارے محلے کا ایک نوجوان جو بی ایس سی کا طالب علم تھا، ایک دن مجھے ملنے کے لیے آیا۔اس نے اپنے کسی مسئلہ کو بیان کرنے کے لیے علیحدگی میں ملاقات کا وقت مانگا۔ میں اس نوجوان کو اچھی طرح جانتا تھا۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ اسے مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے۔ بہر حال میں نے اسے دوسرے دن آنے کا کہا۔ اگلے روز نو جوان مقررہ وقت پر پہنچ گیا اور جھجکتے ، شرماتے ہوئے بہت مشکل سے اپنا مدعا زبان پر لانے میں کامیاب ہوا۔ اس کے انداز گفتگو سے میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ، وہ یہ تھا کہ دراصل اس نوجوان نے روحانی عملیات کے موضوع پر میری ایک کتاب کا مطالعہ کیا تھا اور اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ شاید میں بھی عامل ہی ہوں ۔ اسی بناء پر اس نے اپنے ذاتی مسئلہ کے حل کے لیے میرا انتخاب کیا۔ نوجوان نے پہلے مجھ سے عہد لیا کہ میں اس داستان کا کسی سے ذکر نہ کروں گا ، اور دوسرا یہ کہ میں اس مسئلہ کے حل کے لیے پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ان شاء اللہ کہہ کر اسے یقین دلایا کہ میں اس کے ساتھ ہر ممکن طریقے سے تعاون کی کوشش کروں گا۔
نوجوان نے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا میں اپنی پسند کی جگہ پر شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس لڑکی کی شادی ہو گئی ہے۔ اب میری خواہش یہ ہے کہ پہلے اس لڑکی کو طلاق ہو اور بعد میں میری اس کے ساتھ شادی ہو جائے ۔ میری خواہش میں لڑکی کی رضا مندی بھی شامل ہے۔ اگر آپ میرا یہ کام کر دیں تو میں زندگی بھر آپ کا مشکور رہوں گا ، اور اس کام کو مکمل کرنے کے لیے جو اخراجات درکار ہوں گے، میں ان کی ایڈوانس ادائیگی کے لیے تیار ہوں۔ نوجوان جو مجھے بہت شریف النفس معلوم ہو رہا تھا، اس کے ان خطرناک جذباتی ارادوں نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں اس کو جانتا تھا۔ مجھے اس سے یہ امید نہیں تھی ۔
بجائے اس کے کہ میں اسے انکار کرتا اور وہ کہیں غلط جگہ پھنس جاتا ، میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسے ان خیالات پر شرمندگی کا احساس دلانے کی بجائے اس سے تمام واقعات معلوم کر لیے جائیں ۔ ضرورت مند چونکہ دیوانہ ہوتا ہے ، اسے جہاں بھی اُمید کی ہلکی سی کرن نظر آتی ہے ، وہ اپنے مسئلہ کے حل کے لیے وہاں پہنچ جاتا ہے ۔ اب تقدیر اسے گھیر کر صحیح مقام پر لے آئی تھی ، اس لیے میں نے سوچا کہ کم از کم اپنے طور پر میں اس کے ذہن سے یہ فاسد خیالات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میں نے نوجوان سے کہا کہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اب تک جو کوششیں وہ کر چکا ہے ، ذرا اس کی تفصیل سے آگاہ کرے۔ اس کے بعد ہی میں اپنی کچھ رائے ظاہر کروں گا۔
نوجوان نے اپنی داستانِ غم کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری اپنے محلے کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کی خواہش تھی ، لڑکی بھی والدین کی باہمی رضا مندی سے شادی کے حق میں تھی مگر میرے تمام خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب میرے والدین ان کے ہاں رشتہ مانگنے کے لیے گئے تو لڑکی والوں نے ہمارے مسلک سے اختلاف کی وجہ سے ہمیں رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا، اور ساتھ ہی چند ماہ بعد اس کی زبر دستی کسی اور جگہ پر شادی کر دی ۔ لڑکی نے شادی سے پہلے یقین دلایا کہ والدین زبر دستی شادی کر رہے ہیں مگر میں بہت جلد طلاق لے کر واپس آ جاؤں گی۔ آپ میری ہمت کا اندازہ لگائیں کہ میں نے اس کی شادی کی تقریب میں شرکت بھی کی۔ مجھے اس کے وعدے پر مکمل اعتبار تھا لیکن حالات نے کچھ ایسا رُخ اختیار کیا کہ ہمارے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔
مجھے کسی ذریعے سے علم ہوا کہ تعویز دھاگے کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن مجھے ان چیزوں پر یقین نہیں تھا۔ میں نے اپنی اس آرزو کی تکمیل کے لیے بہت زیادہ نفلی عبادت کی۔ بہت دعائیں مانگیں لیکن مجھے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ تھک ہار کر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی پیشہ ور عاملوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے میں لاہور جا کر مختلف عاملوں سے ملا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ابتدائی فیس دوسو روپے سے گیارہ سو روپے تک بتائی۔ اس رقم کے عوض انہوں نے صرف زائچہ بنا کر بتانا تھا۔ باقی اخراجات کی تفصیل انہوں نے زائچے کے نتائج سامنے آنے کے بعد بتانا تھی جو بقول ان کے ”ہوائی مخلوق‘‘ بتاتی ہے۔ لاہور ہی کے ایک عامل نے اس مسئلہ کو حل کرنے کا خرچہ گیارہ ہزار روپے بتایا۔ لاہور کے عاملوں کا سروے کرنے کے بعد میں گوجرانوالہ کے مشہور عاملوں سے ملا۔ تمام ملاقاتوں کے بعد میں نے گوجرانوالہ کے ایک معروف عامل سے اپنا مسئلہ حل کرانے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے پہلی ملاقات میں ہی عامل سے اپنے آنے کا مقصد بیان کردیا کہ میں ایک شادی شدہ لڑکی کو طلاق دلوا کر اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔
میری بات سن کر عامل نے کہا کہ یہ تو ہمارے لیے کوئی مشکل کام نہیں ، آپ ۲۵۰ روپے زائچہ بنانے کی فیس ادا کر دیں ، آپ کی دلی مراد پوری ہو جائے گی ۔ جب میں نے زائچہ بنانے کی فیس ادا کر دی تو عامل کہنے لگا کہ زائچہ بنانے کے بعد اس کام کے باقی تمام مرحلوں کو طے کرنے کے لیے آپ کو مزید ڈھائی ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ علاوہ اس سامان کے جس کی لسٹ انہوں نے میرے ہاتھ میں تھما دی۔ سامان کی لسٹ میں موجود اشیاء کی تفصیل کچھ یوں تھی : ایک عدد تولیہ ، سلور کا گلاس ، اپنے پاؤں کے نیچے کی مٹی کی کچھ مقدار، اگربتی کا ایک پیکٹ ، چار دن بعد میں ڈھائی ہزار روپے اور سامان لے کر عامل کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ عامل نے میرا خیر مقدم کرتے ہوئے بخوشی رقم اور سامان قبول کرنے کے بعد مجھے اپنے کمرے کے پیچھے بنے کیبن میں لے جا کر عمل کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے اگربتیاں جلائی گئیں اور پرفیوم چھڑکا گیا۔ اس کے بعد عامل نے مجھے کہا کہ جیب میں جو کچھ بھی ہے ، اس کو نکال کر باہر رکھ دو۔ اس کے بعد جائے نماز بچھا کر عامل نے تسبیح پکڑی اور اس پر بیٹھ گیا۔ مجھے ساتھ ہی تو یہ بچھا کر اس پر بٹھا دیا۔ عامل نے میرے پاؤں کی مٹی کو سلور کے گلاس میں ڈال کر اوپر سے کالے رنگ کے کپڑے کے ساتھ اس کو ڈھانپ دیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر عامل نے کمرے کی لائٹ بجھا کر میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ ایسے انداز میں گفتگو شروع کر دی کہ جیسے کوئی پر اسرار مخلوق حاضر ہوگئی ہے۔
اس حاضری کے دوران عامل نے اس ہوائی مخلوق سے جو مجھے نظر نہیں آرہی تھی، میرے کام کے متعلق دریافت کیا۔ عامل مجھے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ جب ”ہوائی مخلوق‘‘ کی حاضری ہوگی تو اس کی آواز عامل کے علاوہ کسی اور کو سنائی نہیں دے گی ۔ حاضری کا یہ عمل بیس منٹ تک جاری رہا۔ اس دوران عامل نے مجھے بتایا کہ ”ہوائی مخلوق‘‘ کہہ رہی ہے کہ عمل کی کامیابی کے لیے ایک سو ساٹھ جنگلی کبوتروں کو رات کے اڑھائی بجے کسی قبرستان میں لے جا کر ذبح کر کے گوشت وہیں پھینک آنا اور خون کو ایک برتن میں جمع کر کے واپس لے آنا ہے۔ میں ذرا کمزور دل تھا اس لیے میں نے پوچھا کہ یہ عمل میری جگہ میرا کوئی دوست کر سکتا ہے؟ عامل کہنے لگا کہ ”ہوائی مخلوق‘‘ کہہ رہی ہے کہ تمہارے علاوہ کوئی دوسرا شخص یہ عمل نہیں کر سکتا۔ دورانِ حاضری میں نے یہ حامی بھر لی کہ یہ عمل خود کر لوں گا۔ اس کے بعد عامل نے میرا ہاتھ چھوڑتے ہوئے حاضری کے عمل کا اختتام کر دیا۔ میں نے عامل سے اجازت لینے سے پہلے پوچھا کہ فرض کریں اگر میں قبرستان والاعمل خود نہ کرنا چاہوں تو کیا آپ میری جگہ یہ عمل کرلیں گے؟ تو عامل نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہ کرو مجھے اس عمل کو کرنے کا بہت تجربہ ہے۔ عامل نے عمل کرنے کی حامی بھرتے ہوئے کہا میں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ قبرستان میں کبوتروں کو ذبح کرنے کا عمل ہر صورت آج ہی کرنا ہے ورنہ آپ کو جانی و مالی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عامل نے مجھے بتایا کہ ۱۶۰ جنگلی کبوتروں کو خریدنے کے لیے نو ہزار چھ سو روپے درکار ہیں۔ مجھے یہ سن کر دھچکا لگا کہ میں اتنی بڑی رقم کا فوری طور پر کیسے انتظام کروں گا۔ عامل نے مجھے گھر جا کر رقم کا بندوبست کرنے کے لیے کہا اور ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ گھر جاتے ہوئے راستے میں درود شریف کا مسلسل ورد جاری رکھوں ۔ کوتاہی کی صورت میں ”ہوائی مخلوق‘‘ کے نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہے۔ میں راستہ بھر درود شریف کا ورد کرتا ہوا اور یہ سوچتا ہوا کہ رقم کا بندو بست کہاں سے ہوگا ؟ گھر پہنچ گیا۔ میں نے آتے ہی گھر والوں سے کہا کہ میرے فلاں دوست کو پانچ ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے ، باقی رقم میں نے مختلف دوستوں سے بہانے بنا کر اُدھار لے لی اور رقم لے کر عامل کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور نو ہزار چھ سو روپے اس کے حوالے کر دیے۔ عامل نے مجھے کہا کہ آپ کا کام تین دن میں مکمل ہو جائے گا، اور ساتھ تاکید کی کہ آنے سے پہلے مجھے فون ضرور کرنا۔ میرے دو دن بہت خوش و خرم گزرے۔ مجھے اپنے مسئلہ کے حل ہونے کا مکمل یقین تھا۔ وقت مقررہ گزرنے کے بعد میں عامل سے فون پر رابطہ کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ آجائیں۔ جب میں عامل کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ میں نے کبوتروں والا عمل مکمل کر لیا ہے لیکن درمیان میں ایک رکاوٹ آگئی ہے ، جس لڑکی سے آپ شادی کرنا چاہتے ہیں، اس کا ستارہ بہت کمزور ہے۔ اس کو طاقتور کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی اور چند مزید چیزوں کی ضرورت بھی پڑے گی۔ اس کے بعد آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اپنی بات مکمل کر کے عامل نے مجھے آٹے کا بنا ہوا ایک پتلا دیا۔ اس میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں ۔ عامل کہنے لگا کہ یہ اس لڑکی کی تشبیہ ہے اس کے ساتھ آپ کا ’’حب نکاح‘‘ کیا جائے گا۔
مجھے اس چیز کا قطعاً علم نہیں تھا کہ ”حب نکاح‘‘ کیا بلا ہوتی ہے۔ عامل نے مجھے بتایا کہ آپ کے مسئلہ کے حل کے لیے حب نکاح کا ہونا بہت ضروری ہے اور حب نکاح کا عمل کرنے کے لیے دو تولے خالص کستوری درکار ہے۔ دو تولے کستوری کی قیمت انہوں نے اٹھارہ، بیس ہزار روپے بتائی ۔ مجھے یہ سن کر اتنی پریشانی ہوئی کہ اتنی پریشانی مجھے اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب اس لڑکی کی شادی ہوئی۔ لیکن اس اُمید پر کہ کسی طرح میرا کام ہو جائے ، میں نے دو تو لے کستوری مہیا کرنے کی حامی بھرلی ، عامل نے مجھے دو دن کی مہلت دی۔ میں نے ایک جگہ سے سو روپے کی نقلی کستوری خرید کر عامل کو پیش کر دی کہ شاید اس سے کام بن جائے لیکن عامل نے نقلی کستوری پہچان لی اور کہا کہ اس سے کام نہیں چلے گا۔ پھر اس نے خود ہی تجویز دی کہ اگر تم واقعی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ ہو تو اصلی کستوری خریدنے کے لیے رقم لا کر مجھے دے دو، میں اپنے ایک جاننے والے سے اصلی کستوری منگوالوں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا ، ایک مرتبہ پھر میں اپنے تمام دوستوں سے قرض لینے کی مہم پر روانہ ہو گیا ، بمشکل ۱۰ ہزار روپیہ اکٹھا ہوا ، دوسرے دن میں نے عامل کو رقم ادا کرنے کے لیے جانا تھا کہ سخت بیمار ہو گیا۔ میں نے عامل کو فون کر کے اطلاع دی کہ کچھ رقم کا بندوبست ہو گیا ہے مگر میں بخار کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا ، تو عامل نے مجھ سے میرے گھر کا ایڈریس معلوم کیا اور کہا کہ میں اپنے ملازم کو بھیج رہا ہوں، رقم اس کو ادا کر دی جائے۔ عامل کا ملازم میرے پاس پہنچ گیا، میں نے رقم اس کے حوالے کی تو اس نے پیغام دیا کہ آپ باقی رقم کا جلد از جلد بندو بست کریں ۔ دو دن میں نے ادھر اُدھر سے نو ہزار روپے اُدھار پکڑے اور عامل کے حوالے کر دیے۔ عامل نے لڑکی کی تصویر کا مطالبہ بھی کیا مگر پتہ نہیں کیوں میں نے تصویر دینے سے انکار کر دیا اور بہانا بنایا که تصویر لانا میرے بس میں نہیں۔ رقم وصول کرنے کے بعد عامل نے مجھے کہا کہ بس اب آپ بے فکر ہو جائیں ، لڑکی دو دن بعد آپ کے پاس ہو گی ۔ یہ خوش خبری سن کر میں سہانے سپنے دیکھتا ہوا گھر آ گیا اور بے تابی سے دو دن گزرنے کا انتظار شروع کر دیا۔ اللہ اللہ کر کے یہ پہاڑ جیسے دو دن گزرے تو میں پھر عامل کے پاس جا حاضر ہوا کہ ابھی تک کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا ؟ تو عامل نے ٹال مٹول شروع کر دی کہ مجھے اپنے علم کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ لڑکی اس وقت حاملہ ہے اور شرعی طور پر اس حالت میں طلاق نہیں ہو سکتی۔ چونکہ طلاق اس وقت موثر ہوگی جب وہ اس حالت سے فارغ ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب عامل نے مجھے ایک اور چکر دیا کہ صرف ایک ہفتہ بھر کا ایک چھوٹا ساعمل کرو ، تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔ عمل یہ تھا کہ سات دنوں میں درود شریف کی ایک ہزار تسبیح پڑھنی ہیں۔ میں نے یہ عمل بھی مکمل کر لیا۔ اس کے بعد عامل نے پھر مجھے دلاسہ دے کر ایک ہفتہ کا ایک اور عمل بتا دیا۔ غرض یہ کہ جو کام تین دن میں مکمل ہونے کا مجھے یقین دلایا گیا تھا اس کو شروع ہوئے ، دو ماہ ہو چکے تھے اور کامیابی کا اب بھی دُور دُور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔
ایک دن جب میں غصے میں بھرا ہوا عامل کے پاس گیا تو اس نے مجھے کہا کہ بس ایک آخری عمل رہ گیا۔ وہ بھی آزما کر دیکھ لیتے ہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ روٹی کا ایک پتلا اس طرح بنوا کر لاؤں کہ اس کا پیٹ چاک کیا ہوا ہو، میں عامل کی ہدایت کے مطابق اپنے ایک جاننے والے درزی سے روٹی کا پتلا بنوا کر لے گیا۔ اس دن بارش ہو رہی تھی۔ عامل نے پتلے پر کچھ پڑھ کر اس میں سوئیاں پیوست کیں اور جلدی جلدی اس کے پیٹ میں کچھ پڑیاں رکھیں اور پتلے پر ایک تعویذ بنا کر میرے حوالہ کر دیا اور کہا کہ اس پتلے کو اپنے شہر کے کسی قبرستان میں کسی بچے کی قبر کے پاؤں کی جانب دفن کرنا ہے اور تاکید کی کہ جلد از جلد گھر پہنچ کر اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤ۔ میں عامل سے اجازت لے کر دفتر سے باہر نکلا اور گھر کے لیے بس پر سوار ہو گیا۔ مجھے بس میں سوار ہوئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس پتلے میں سے جس کو میں چھپا کر ایک شاپر میں ڈالا ہوا تھا ، دھواں اور آگ کے شعلے نکلنا شروع ہو گئے ۔اس اچانک رونما ہونے والے واقعہ سے میں بہت گھبرا گیا۔ بس کے مسافروں نے ڈرائیور سے سخت احتجاج کر کے مجھے بس سے نیچے اُترنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ میرے کپڑے بھی کئی جگہ سے جل گئے ۔ بس سے نیچے اتر کر میں نے سڑک کے ارد گرد کھڑے بارش کے پانی میں پتلے کو بھگو کر آگ پر قابو پایا اور ایک دوسری بس میں سوار ہو کر پتلے کو بحفاظت گھر لے آیا۔
گو کہ اس واقعہ نے مجھے سخت پریشان کیا مگر میرے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا اور میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ اسے طلاق ضرور دلوانی ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ لیکن پتلے کو قبرستان میں دفن کرنے سے میں خوف زدہ ہو گیا اور میرے دل میں یہ خیال پختہ ہو نے لگا کہ عامل میرے ساتھ ڈرامے بازی کر رہا ہے۔ میں نے پتلے کو قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے گھر میں ہی چھپا کر رکھ دیا۔ دو دن بعد میں نے کچھ حوصلہ کر کے عامل کو فون پر سخت الفاظ میں کہا کہ آپ کے بتائے ہوئے عملوں سے ابھی تک مجھے فائدے کی بجائے نقصان پہنچا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ اپ نے مجھے آگ لگنے والے واقعہ سے فوراً کیوں نہ آگاہ کیا۔ عامل نے کہا کہ میں اسے فوراً آ کر ملوں۔ ایک بار پھر میں اس کے جھانسے میں آ گیا اور عامل سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب میں عامل کے پاس پہنچا تو وہ فرمانے لگے کہ آپ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ ”ہوائی مخلوق“ کا حملہ تھا۔ شکر ہے کہ انہوں نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن اب میرا اس سے اعتماد اُٹھ چکا تھا۔ اب مجھے ہوش آنا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ میں عامل کو کچھ کہے بغیر گھر واپس آ گیا اور بہت سوچ بچار کے بعد اپنے ایک قریبی عزیز کو بتایا کہ میں کس طرح ایک عامل کے چنگل میں پھنس کر ہزاروں روپے برباد کر چکا ہوں ۔ وہ مجھے ساتھ لے کر اس عامل کے پاس آئے اور اس سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں نے تو بہت محنت کی ہے۔ اب کام کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کے اختیار میں ہے۔
میرے اس عزیز کے سخت رویہ اختیار کرنے پر عامل نے بیس ہزار روپے واپس کرنے کی حامی بھر لی اور اس کے لیے ایک مہینہ کی مہلت مانگی۔ جب ہم ایک ماہ بعد رقم لینے کے لیے عامل کے آستانے پر پہنچے تو وہاں اس کی بجائے کوئی اور عامل بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ پہلے عامل کا ایکسڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ اس حادثے میں انتقال کر گئے ہیں۔ ہم صبر شکر کر کے واپس تو آگئے مگر مجھے شک تھا کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے ۔ میں نے اس عامل کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جس کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہوا کہ پہلے والے عامل نے اپنا یہ آستانہ ستاون ہزار میں فروخت کر کے اب کسی دوسرے شہر میں نیا آستانہ بنا لیا ہے۔ میری کوشش ابھی تک جاری ہے لیکن مجھے اُمید نہیں کہ مجھے میری رقم واپس مل جائے گی ۔
یہ نوجوان جس کے ساتھ یہ فراڈ ہوا ، آج بھی اس اُمید پر زندگی بسر کر رہا ہے کہ ایک نہ ایک دن میں کسی عامل کامل کو تلاش کر کے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلوں گا۔ ایک روز نامہ میں روحانیت کے صفحہ پر ہماری طرف سے ایک اعلان شائع ہوا تھا کہ کیا آپ یا آپ کا کوئی عزیز رشتہ دار کسی روحانی مرض میں مبتلا ہے؟ دوران علاج آپ کو کن تجربات سے گزرنا پڑا؟ کیا آپ کا پیشہ ور عاملوں اور اشتہاری جادوگروں سے واسطہ پڑا؟ انہوں نے آپ کا کس طریقے سے علاج کیا؟ آپ سے کتنی رقم بٹوری ؟ آپ کو کیا سبز باغ دکھائے ؟ اور دوران علاج آپ کن ذہنی روحانی اور جسمانی اذیتوں سے دو چار ہوئے ، کن تکلیف دہ مراحل سے گزرے۔ اس وقت آپ کی کیا کیفیت ہے ؟ ہمیں اپنی وہ تمام کیفیات اور تجربات لکھ بھیجئے۔ ہم انہیں شائع کریں گے۔ آپ کی راہنمائی کریں گے اور آپ کے روحانی مسائل کے حل کے لیے آپ کی رہنمائی بھی کریں گے۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد ہمیں بہت زیادہ تعداد میں خطوط موصول ہوئے جن میں عاملوں کے ہاتھوں ڈسے ہوئے افراد نے اپنی دردناک آپ بیتیاں تحریر کی تھیں، یہ عامل سادہ لوح خواتین و حضرات کو کس طرح بیوقوف بنا کر لوٹتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو یہ خط پڑھ کر ہو گا جو ایک محترمہ نے ہمیں ارسال کیا۔
میں ایم اے کی طالبہ ہوں۔ میں ایک جگہ شادی کی خواہش مند تھی۔ مگر لڑکے کے والدین اس کے لیے آمادہ نہیں ۔ انہوں نے اس کی زبر دستی کہیں اور منگنی کر دی ہے۔ میں نے اپنی پسند کی شادی کے لیے لاہور کے سب سے مشہور پامسٹ سے رابطہ کیا اور اس سے اپنا زائچہ بنوایا۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ پر نحوست کا سایہ ہے۔ اگر آپ نے صرف نحوست اتروانی ہے تو اس پر ستائیس ہزار روپے خرچ آئے گا اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس پر پچاس ہزار روپے خرچ آئے گا اور اس کے لیے کالا جادو کرنا پڑے گا۔ میں نے سوچا کہ کالے جادو والا گناہ اس قدر بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا ،سو میں نے اس سے علاج کرانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثناء میں اخبار میں ایک عامل کا اشتہار شائع ہوا جس نے نوری عمل کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا ، میں نے اسے فون پر اپنا مسئلہ بتایا۔ اس نے تسلی دی کہ کوئی مسئلہ نہیں میں آج ہی آپ کے مسئلے کے لیے حاضری کروں گا اور اس کے بعد جو کچھ آپ سے کہا جائے گا وہ آپ کو کرنا پڑے گا۔ وہ نوافل، زکوۃ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے حامی بھر لی۔ میرے دوبارہ فون کرنے پر اس نے کہا کہ اُلو کی نر اور مادہ جوڑی چاہیے ، اس پر عمل کرنا پڑے گا اور اس کے لیے رقم درکار ہے۔ یقین جانیے میں نے اُدھار لے کر پیسے بھجوا دیے۔ اس نے ایک نقش مجھے پہننے کے لیے بھیجا اور کہا کہ یہ بازو پر باندھ لیں۔ وہ لوگ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ وہ نقش میرے پاس اب بھی موجود ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے سبز مور کی جوڑی چاہیے ۔ اس پر آٹھ ہزار چارسو روپے لگیں گے تو آپ کا عمل مکمل ہوگا۔ میں نے یہ رقم بھی بھجوا دی کہ پہلے پیسے ضائع نہ ہوں اور یہ عمل مکمل ہو جائے۔ اس نے مجھے گیارہ عدد نقش بھجوائے اور کہا کہ یہ آٹے کی گولی بنا کر اس پر سوئیاں لگا کر ایک دن کے وقفے سے درود شریف اور الحمد شریف پڑھ کر بہتے پانی میں بہا دینا۔ میں نے یہ عمل بھی کر دیا۔ جب کچھ نتیجہ نہ نکلا تو میں نے دوبارہ اسے فون پر آگاہ کیا۔ عامل نے کہا کہ میں رات کو حاضری کر کے معلومات حاصل کروں گا۔ بعد میں اس نے بتایا کہ آپ پر کوئی مسلسل کالا عمل کر رہا ہے۔ اس کے توڑ کے لیے دوبارہ محنت کرنا پڑے گی ۔ اب یہ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں اسے مزید رقم بھیجوا سکوں ۔ اس طرح کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا اور میری رقم ضائع ہوگئی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے میری تصویر منگوائی تھی جو اس کے پاس ہی ہے۔
اب میں اس پوزیشن میں نہیں کہ مزید رقم ضائع کر سکوں ۔ اب میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ میں نے پڑھائی تک چھوڑ دی ہے ، بہت ڈسٹرب ہوں۔ خدارا میری مدد کریں ، ورنہ میرا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ میرے گھر والوں کو اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ، یہ میری زندگی کا سوال ہے ، ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گی ۔
جی جناب! قرآن و حدیث کو چھوڑ کر اور تقدیر پر عدم رضا مندی کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا، اور آخرت کا عذاب تو اس کے علاوہ ہے۔ (اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین)
علم نجوم کی ایک قسم علم التیسیر ہے ۔ یعنی کہ سورج اور چاند کی منازل کو سیکھنا تاکہ اس کے ذریعے قبلہ کی درستگی ، اوقات نماز اور موسموں کی آمدروفت کا علم ہو سکے ۔

امام احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہ علم التیسیر سیکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ علامہ خطابیؓ فرماتے ہیں کہ ’’علم نجوم کا وہ حصہ جس کا ادراک مشاہدہ اور خبر سے ممکن ہے وہ ممنوع نہیں ہے، مثلاً زوال شمس کی معرفت اور اس کے ذریعے جہت قبلہ کا تعین وغیرہ“
امام مجاہدؒ بھی چاند کی منازل سیکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس حد تک کے علم میں شرک یا کفر میں مبتلا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ ’’انسان علم نجوم سے صرف اتنا حصہ حاصل کر سکتا ہے جس کے ذریعے وہ راستے معلوم کر سکے ۔“
بہر حال جمہور علماء کے نزدیک راستوں کی نشان دہی اور جہت قبلہ کی معرفت کی حد تک علم نجوم کا سیکھنا جائز ہے اور اس سے زیادہ کچھ حاصل کرنا باطل ہے ۔ جمہور کا یہ قول بالکل درست ہے۔

حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ ” چاند اور سورج گرہن کے وقت کا تعین بھی جائز ہے۔‘‘
(تيسر العزيز الحميد، ص : ٤٤٧ – ٤٤٩ ـ فتح المجيد ، ص: ۲۷۷ – ۲۷۸ – مغنى المريد : ٢٠٢٣/٦ و ما بعدها، توحيد اله العالمين: ٤٩٩/١ – ٥٠٠)

امام بخاریؒ اپنی صحیح میں ’’کتاب بدء الخلق، باب فی النجوم“ میں فرماتے ہیں کہ
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ [الملك : ٥]
’’بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے زینت والا بنا دیا “ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین اغراض کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ آسمان کی زینت، شیطان کو مارنا اور راستے معلوم کرنے کی علامت۔ جس نے ان تینوں اغراض کے علاوہ کچھ اور سمجھا تو اس نے زبردست غلطی کی ، اور اپنا آخرت کا حصہ بھی ضائع کر دیا اور ایسی بات کا تکلف کیا جس کا اسے کوئی علم نہیں۔“

یادر ہے کہ ستاروں کی تخلیق کی تین بیان کردہ حکمتیں قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔ چنانچہ ستاروں کے آسمان کی زینت اور شیطان کے لیے مار ہونے کی دلیل یہ ہے :
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ ‎﴿٦﴾‏ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍ ‎﴿٧﴾‏ لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ ‎﴿٨﴾‏ دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ ‎﴿٩﴾‏ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ‎﴿١٠﴾‏
(الصفت : ٦ تا ١٠)
”ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا ، اور سرکش شیطان سے اس کی حفاظت کی ، عالم بالا کے فرشتوں (کی باتیں) سننے کے لیے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے ۔ ہر طرف سے بھگانے کے لیے انہیں انگاروں سے مارا جاتا ہے اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہے ، مگر جو کوئی ایک آدھ بات اُچک لے بھاگے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔“

اور راستے معلوم کرنے کی علامت ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ یہ فرمانِ عالی شان ہے:
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ‎﴿١٦﴾‏
(النحل : ١٦)
اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں ، اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔

شبہات اور ان کا ازالہ :

بھلا شبه : علم نجوم کو ثابت اور صحیح کہنے والے کہتے ہیں کہ بعض اوقات نجومیوں کی بات سچ اور صحیح ثابت ہوتی ہے ، لہذا ’’ علم نجوم ‘‘ سچ ہے۔

ازاله : معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا بعض اوقات سچ بولنا کاہنوں کے سچ کی طرح ہے ، جو ایک بار سچ بولتے ہیں اور سو (۱۰۰) بار جھوٹ سکتے ہیں۔ بایں وجہ کا ہنوں کی طرح ان کے ایک بار کے سچ سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا علم صحیح ہے۔

دوسرا شبه : بعض نجومی حضرات علم نجوم کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں:
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ‎﴿١٦﴾‏
(النحل : ١٦)
’’اور کئی دیگر نشانیاں بنائیں ، (جن سے) اور ستاروں سے وہ رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔“

وجه استدلال : اور وجہ استدلال یہ بیان کرتے ہیں کہ ستاروں کو علم غیب کی ایسی علامات قرار دیا گیا ہے کہ لوگ ان کے ذریعے علم غیب معلوم کر لیتے ہیں۔

ازاله : اس آیت کریمہ کا یہ مقصود ہرگز نہیں، بلکہ ستاروں کے علامات ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کی قدرت و وحدانیت کے دلائل ہیں۔

بعض مفسرین آیت کریمہوَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ‎﴿١٦﴾ کو اس سے پہلی آیت کا تتمہ قرار دیتے ہیں، اور وہ آیت یہ ہے :
وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ‎﴿١٥﴾
(النحل : ١٥)
”اور اس نے زمین میں پہاڑ رکھ دیے تا کہ وہ تمہیں اُٹھائے ہوئے ڈگمگاتی نہ رہے ، اور نہریں اور راستے بنائے تا کہ تم (اپنی منزل تک ) راہ پا سکو “

تو (اس) پہلی آیت کا معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے اور چھوٹے پہاڑوں کی صورت میں زمینی راستے شناخت کرنے کے لیے تمہیں علامات مہیار کر دی ہیں ۔
عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دن کے وقت راستے معلوم کرنے کے نشانات ہیں اور وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ سے مراد ہے کہ سمندری سفروں میں ستاروں کے ذریعے راستہ پہچاننے کی مددملتی ہے ۔
(تيسير العزيز الحميد، ص : ٤٤٤ – تفسير ابن أبي حاتم : ۲۲۷۹/۷ – تفسير طبری : ٥٧١/٧-٥٧٢ – نظم الدرر : ٢٥٥/٤ – تفسير المراغى : ٦٢/٥ – ٦٣ – تفسير ابن كثير : ٣٧/٤)

اب اس آیت کریمہ سے علم نجوم کو صحیح ثابت کرنے کے لیے استدلال کرنا ، یقینا دانستہ طور پر ایک ایسی چیز کو ثابت کرنے کے مترادف ہے جس کا فساد دلائل شرعیہ اور براہین قاطعہ سے واضح معلوم ہے ، اور یہ استدلال کی فاسد ترین صورت ہے۔
(تيسير العزيز الحميد، ص : ٤٤٥)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے