مزارات کی تعمیر اور ان کی مجاوری
قبروں پر مزارات، قبے اور گنبد کی تعمیر اور ان کی مجاوری کفر و الحاد کی ایک رسم اور شرک کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ عمل کنائس الیہود اور منادر الہنود کے بالکل مترادف ہے۔ جس طرح گر جاؤں اور کلیساؤں میں غیر اللہ کی پرستش ہوتی ہے بعینہ اسی طرح مزارات میں بزرگان دین کی بندگی کی جاتی ہے، امیر صنعانی نے اپنی کتاب ’’تطہیر الاعتقاد‘‘ میں رقم کیا ہے:
((وَالْمَشَاهِدُ أَعْظَمُ الدَّرِيعَةِ إِلَى الشِّرْكِ وَالَّا الْحَادِ ، وَيَرَوْرُهُ النَّاسُ الَّذِينَ يَعْرِفُونَهُ زَيَارَةَ الْأَمْوَاتِ مِنْ غَيْرِ تَوَسُّل بِهِ بَلْ يَدْعُونَ وَيُسْتَغْفِرُونَ حَتَّى يَنْفَرِضَ مَنْ يَعْرِفُهُ أَوْ أَكْثَرَهُمْ ، فَيَأْتِي مِنْ بَعْدِهِمْ مَنْ يَرَى قَبْراً قَدْ سُيِّدَ عَلَيْهِ الْبِنَاهُ وَسُرِجَتَ عَلَيْهِ الشُّمُوعُ وَفَرْشُ بِالْفِرَاشِ الفَاخِرِ فَيَعْتَقِدُ أَنَّ ذلِكَ لِنَفَع أَوْ دَفَع ضُرِ ، وَتَأْتِيهِ السَّدَنَةُ يَكْذِبُونَ عَلَى الْمَيِّتِ بِأَنَّهُ فَعَلَ وَفَعَلَ ، وَأَنْزَلَ بِفُلَانِ الضُّرُّ وَبِغُلَانِ النفع حَتَّى يَغْرِسُو في جبلتِهِ كُلَّ بَاطِل))
بحواله عقد الجيد
’’مزارات اور قبے شرک والحاد کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، صاحب قبر کو جاننے والے لوگ تو محض زیارت قبور کے لیے وہاں جاتے ہیں، قبر کو وسیلہ نہیں ٹھہراتے ، بلکہ صاحب قبر کے لیے دعائے خیر اور اس کے لیے بخشش اور مغفرت طلب کرتے ہیں۔ لیکن کچھ مدت گزر جانے کے بعد جب دوسری نسل آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس قبر پر کیا خوب ہی عمارت بنی ہوئی ہے ، چراغ روشن کیے جاتے ہیں، فاخرانہ فرش بچھے ہوئے ہیں، تو وہ بجھتی ہے ضرور اس میں ہمارے حصول نفع اور دفع ضرر کا سامان موجود ہے ، اور ان کے پاس وہاں مجاوروں کی جانب سے جھوٹی حکایات منسوب کرتے ہیں کہ صاحب قبر نے بڑے بڑے کام کیے ہیں، فلاں کو اس کی قبر سے نفع ہوا اور فلاں کو نقصان پہنچا۔ حتی کہ قصے کہانیاں بیان کر کے طبیعت میں اوہام و خرافات پیدا کر دیے جاتے ہیں، جس سے وہ نذر و نیاز دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔‘‘
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر قبے اور گنبد وغیرہ بنانے سے شدت سے منع کیا ، بلکہ سید نا علیؓ کو خاص اس لیے روانہ فرمایا کہ جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دیں، اور جو بت ملے اسے مٹاڈالیں ۔ ابوالہیاج اسدیؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے علیؓ نے فرمایا:
(( أَلَا أَبْعَتُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن لَا تَدَعَ نِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ . ))
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب الامر ہتسویتۃ القبر رقم ٩٦٩۔
’’ کیا میں تجھ کو اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے مقرر کیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ تم کوئی تصویر و مجسمہ نہ چھوڑ و مگر اسے مٹا دو، اور جو قبر زیادہ اونچی ہوا سے ( عام قبروں کے ) برابر کر دو ۔“
سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ:
((نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن تُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَن قعَدَ عَلَيْهِ وَأَن تُبْنَى عَلَيْهِ.))
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب النهي عن: مصيص القبر والبناء عليه، رقم: ۹۷۰ – سنن أبو داؤد، كتاب الجنائز، رقم: ۳۲۲۵- سنن ترمذی، کتاب الجنائز، رقم: ١٠٥٢.
’’رسول اللہ ﷺ نے قبر کو چونا گچ کرنے ، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے۔‘‘
امام نوویؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
(( وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ كَرَاهَةُ تَجْصِيصِ الْقَبْرِ وَالْبَنَاءِ عَلَيْهِ وَتَحْرِيمُ القعود))
شرح النووي : ۳۲/۷.
’’اس حدیث میں قبر کو پختہ کرنے ، اس پر عمارت بنانے کی کراہت ہے اور ان پر بیٹھنے یعنی مجاوری کی حرمت موجود ہے۔“
سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں:
(( نَهَى نَبِيُّ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن يُبْنَى عَلَى الْقُبُورِ ، أَوْ يُقْعَدَ عَلَيْهَا أَوْ يُصَلَّى عَلَيْهَا . ))
مسند أبو يعلى : ۲۹۷/۲، رقم: ۱۰۲۰- صحيح سنن ابن ماجة ، كتاب الجنائز، رقم: ١٥٦٤ مجمع الزوائد: ٦١/٣.
’’نبی ﷺ نے قبروں پر عمارت بنانے ، ان پر بیٹھنے ( مجاوری اختیار کرنے ) اور نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔‘‘
ابو بردہؓ بیان کرتے ہیں:
((أَوضَى أَبُو مُوسَى حِيْنَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَقَالَ: إِذَا انْطَلَقْتُمُ بِجَنَازَنِي فَاسْرِعُوا الْمَشْيَ وَلَا يُتبَعُنِي مُجَمَّرٌ وَلَا تَجْعَلُوا فِي لَحْدِي شَيْئًا يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ التُّرَابِ وَلَا تَجْعَلُوا عَلَى قَبْرِي بِنَاءً ، وَأَشْهِدُكُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ حَالِقَةٍ أَوْ سَالِقَةٍ أَوْ خَارِقَةٍ ، قَالُوا: أَوَ سَمِعْتَ فِيْهِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
مسند أحمد: ٣٩٧/٤، رقم: ١٩٥٤٧ – شیخ شعیب الارناؤوط نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
’’ابو موسیٰ اشعریؓ نے موت کے وقت وصیت کی کہ جب تم میرا جنازہ لے کر چلنے لگو تو جلدی چلنا، اور میرے ساتھ کوئی انگیٹھی ہو اور نہ میری لحد میں کوئی چیز رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو، اور نہ ہی میری قبر پر کوئی عمارت بنانا ، اور میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں سرمنڈانے والی ، چیخ و پکار کرنے والی یا کپڑے پھاڑنے والی سے بری ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا:
کیا آپ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا:
ہاں ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں ۔“
ان احادیث کی روشنی میں فقہائے اُمت نے قبروں پر عمارات، بنانے کو حرام قرار دیا ہے، اور ان قبوں اور مزارات کے گرا دینے کا حکم صادر فرمایا ہے جو علی رغم الشریعت بنائے جاتے ہیں، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں یہ اصل موجود ہے کہ جو عمارت فتنہ وفساد کا باعث ہو، یا جس کی اساس معصیت الرسول پر ہو اس کا گرا دینا واجب ہے۔ یادر ہے کہ اس حکم پر عمل کرنا ہر شخص پر لازم نہیں ہے بلکہ یہ کام حکومت اسلامیہ کا یا کے سربراہ کا ہے۔ تا کہ فتنہ وفساد نہ ہو۔
خواہ وہ مسجد ہی کیوں نہ ہو چنانچہ مسجد ضرار کا قصہ اس کی بین اور واضح دلیل ہے۔
فائدہ:
’’ قصہ یوں ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ابو عامر الراہب نامی ایک شخص زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا، اس کا خزرج والوں میں بڑا مقام تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت مدینہ کی تو اسے دعوت اسلام دی لیکن اس نے انکار کر دیا اور غزوہ بدر کے بعد مکہ جا کر کفار قریش کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف برانگیختہ کیا۔ غزوہ اُحد میں کافروں کی صف میں آگے آکر انصار کو مخاطب کر کے اپنی تائید کی دعوت دی ، جس پر انصار نے اسے بہت زیادہ بُرا کہا۔ اس کے بعد اس نے روم جا کر وہاں کے بادشاہ ہر قل کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا، اور وہیں سے مدینہ میں اپنے منافق دوستوں کو لکھا کہ وہ ایک مسجد بنائیں جس کا مقصد اسلام کے خلاف سازش ، اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا ہو۔ اور جب وہ مدینہ واپس آئے گا تو اس کو اپنے لیے بطور کمین گاہ استعمال کرے گا، جب منافقین نے وہ عمارت بنا ڈالی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم نے کمزوروں اور بیماروں کے بارش اور سردی سے بچاؤ کے لیے ایک مسجد بنائی ہے ، ہماری خواہش ہے کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں اور اس میں نماز پڑھیں۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ واپسی پر چلوں گا، واپسی پر آپ مدینہ سے کچھ فاصلے پر تھے کہ وحی نازل ہوئی اور اس عمارت کی حقیقت معلوم ہوئی ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے دو صحابہ کو بھیجا جنہوں نے اس مکان کو جلا دیا ، جسے اللہ رب العزت نے ’’مسجد ضرار‘‘ کا نام دیا ، یعنی جو قبا والوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی ۔‘‘
ملخص از تفسیر ابن کثیر: ٤٤١٠٤٤٠/٣ – بتحقيق ع لرزاق مهدی۔
’’ان تمام قبوں کا گرا دینا واجب ہے جو قبروں پر بنائے جاتے ہیں ، کیونکہ ان کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت پر ہے ۔‘‘
مجالس الأبرار، ص: ۱۲۱۔
یادر ہے کہ سیدنا علیؓ سے ’’تسویۃ القبور‘‘ کے بارے میں مذکور حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قبروں کو بالکل مسمار کر کے زمین کے برابر کر دیا جائے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں عام قبروں کے برابر حد شرعی تک برابر کیا جائے ، یعنی ایک بالشت تک اونچا رہنے دیں جس سے معلوم ہو کہ یہ قبر ہے۔
امام بیہقیؒ نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی قبر زمین سے ایک بالشت اونچی تھی ۔
سنن الكبرى ، بَابُ لَا يُزَادُ فِي القَبْرِ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ تُرَابِهِ لِفَلا يَرْتَفَعَ جَدًّا : ٤١٠/٣ –
امام بیہقی کی تبویب سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ قبر کی مٹی سے زائد اس پر نہ ڈالی جائے تا کہ زیادہ بلند نہ ہو جائے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
(( إِنَّ السُّنَّةَ أَنَّ الْقَبْرَ لَا يُرْفَعُ عَلَى الْأَرْضِ رَفْعًا كَثِيرًا. ))
شرح مسلم للنووي : ۳۱/۷۔
’’یقینا سنت یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو (بلکہ ایک بالشت کے برابر اونچی ہو ۔)“
شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
(( وَيُرْفَعُ الْقَبْرُ مِنَ الْأَرْضِ قَدْرَ شِبْرٍ وَيُرَشُ عَلَيْهِ الْمَاءُ وَيُوْضَعُ عَلَيْهِ الْحَا وَإِن طينَ جَازَ وَإِنَّ حُضِصَ كُرِهَ . ))
غنیتہ الطالبین، مترجم، ص: مكتبه تعمیر انسانیت، لاهور۔
’’ قبر زمین سے ایک بالشت بلند کی جائے ، اور اس پر پانی چھڑ کا جائے ، اور اس پر سنگریزہ رکھ دیں اور اگر لیپ کر دیں تو جائز ہے مگر گچ سے بنانا مکروہ ہے۔“
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں:
(( وَلَا نَرى أن يُرَادَ عَلى مَا خَرَجَ مِنْهُ وَنَكْرَهُ أَنْ يُجَصَّصَ أَوْ يُطِينَ أو يُجْعَلَ عِندَهُ مَسْجِدًا أَوْ عَلَمَا أَوْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ ، وَيُكْرَهُ الْآجُرُّ أن يُيْنَى بِهِ أَوْ يُدْخَلَ الْقَبُرُ وَلَا نَرَى بِرَبِّ الْمَاءِ عَلَيْهِ بَأْسًا .))
كتاب الآثار لمحمد بن حسن الشيبانی ، مترجم، ص: ۱۲۶۔
’’اور نہیں دیکھتے ہم یہ کہ زیادہ کیا جائے اس چیز پر جو کہ اس سے نکلے یعنی جو مٹی قبر سے نکلے اس کے سوا اور مٹی اس میں ڈالی نہ جائے ، اور ہم مکر وہ سمجھتے ہیں یہ کہ کیچ کی جائے یا مٹی سے لیپی جائے ، اور مکروہ ہے پکی اینٹ کہ اس سے قبر بنائی جائے یا قبر میں داخل کی جائے ، اور ہمارے نزدیک قبر پر پانی چھڑکنے میں کچھ گناہ نہیں۔“
علامہ محمود آلوسیؒ فرماتے ہیں:
((ثُمَّ إِجْمَاعًا فَإِنَّ أَعْظَمَ الْمُحَرَّمَاتِ وَأَسْبَابِ الشَّرُكَ الصَّلوةُ عِنْدَهَا ، وَاتَّخَاذْهَا مَسَاجِدَ ، وَبَنَالُهَا عَلَيْهِ ، وَتَحِبُّ الْمُبَادَرَةُ إِلَى هَدْمِهَا ، وَهَدْمُ الْقُبَابِ الَّتِي عَلَى الْقُبُوْرِ إِذْ هِيَ أَضَرُّ مِنْ مَسْجِدِ الضَّرَارِ لِأَنَّهَا أُسَسَتْ عَلَى مَعْصِيَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَجِبُ إِزالَهُ كُلَّ قَنْدِيلِ أَوْ سِرَاحٍ عَلَى قَبْرٍ ، وَلَا يَجُوزُ وَقُفُهُ ونذرہ))
روح المعاني : ۲۳/۸/۱٥ مکتبه امیدادیه، ملتان۔
’’اس بات پر اجماع ہے کہ سب سے بڑی حرام اور شرک کے اسباب کی چیزوں میں سے مزاروں کے پاس نماز پڑھنا ، اور ان پر مسجدیں یا عمارتیں بنانا ہے۔ ایسی اشیاء کو اور جو قبروں پر قبے بنائے گئے ہیں انہیں گرانا واجب ہے۔ کیونکہ یہ مسجد ضرار سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں، اس لیے کہ ان کی بنیاد میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر رکھی گئی ہیں، اور قبروں پر ہر قندیل اور چراغ کو گل کرنا بھی واجب ہے، اور اس کا وقف کرنا اور نذر ماننا بھی نا جائز ہے۔“
قاضی ثناء اللہ پانی پاتی حنفیؒ فرماتے ہیں:
((آنچه بر قبور اولیاء عمار تھائی رفیع بنامی کنند و چراغان روشن می کنند و ازین قبیل هرچه می کنند حرام است یا مكروه.))
مالا بدمنه ، ص : ٦٧۔
’’وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں، اور چراغ روشن کرتے ہیں، اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے یا مکروه۔‘‘
امام مالکؒ فرماتے ہیں:
(( أَكْرَهُ تَجْصِيصَ الْقُبُورِ وَالْبِنَاءَ عَلَيْهَا ))
المدونة الكبرىٰ: ۱۷۰/۱۔
’’میں قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر عمارات تعمیر کرنے کو مکروہ (حرام ) سمجھتا ہوں ۔‘‘
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
(( وَلَمْ أَرَ قُبُورَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارٍ مُجَصَّصَةٌ (قَالَ الرَّاوِيُّ) عَنْ طَاؤُسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَن تُبَنِى الْقُبُورُ أَوَ تُجَصَّصَ ….. وَقَدْ رَأيتُ من الولاة مَنْ يَهْدِمُ بِمَكَّةُ مَا يُبْنَى فِيْهَا فَلَمْ أَرَ الْفُقَهَاءَ يَعِبُيُونَ ذَلِكَ . ))
كتاب الأم ، باب ما يكون بعد الدفن : ۲۷۷/۱.
میں نے مہاجرین اور انصار صحابہؓ کی قبروں کو پختہ تعمیر شدہ نہیں دیکھا ، طاؤس نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر عمارت کی تعمیر یا پختہ کرنے سے منع کیا ہے، اور میں نے ان حکمرانوں کو دیکھا ہے جو مکہ میں قبروں پر عمارت کو گراتے تھے اور میں نے اس کام پر فقہاء کو عیب لگاتے نہیں دیکھا۔“
(فقہ جعفریہ کے) امام ابوالحسن موسیٰ کاظمؒ سے سوال کیا گیا کہ قبر پر عمارت بنانا اور اس پر بیٹھنا کیسا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
لَا يَصْلُحُ الْبِنَاء عَلَيْهِ وَلَا الْجُلُوسَ وَلَا تَجْصِيصُهُ وَلَا تَطيتُهُ .
الاستبصار ، باب النهي عن تخصيص القبر و تطيينه : ۲۱۷/۱.
’’ قبر پر عمارت تعمیر کرنا، اس پر بیٹھنا، اسے پختہ بنانا اور لپائی کرنا درست نہیں۔“
قارئین کرام! قبور اولیاء پر جس قدر گنبد، قبے اور مزارات تعمیر کیے گئے ہیں اور جو کچھ عبادات وہاں بجا لائی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح گر جاؤں اور کلیساؤں میں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے ، صرف ناموں کا اختلاف ہے ، ہندو ایسے مقام کا نام ( مندر ) رکھتے ہیں ، اور مسلمان مشاہد، خانقاہ اور درگاہ یا مزار شریف کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور اسی طرح خانقاہوں کے مجاور ’’سدنة البد‘‘ کے مشابہ ہیں ۔ علامہ بلاذریؒ نے محمد بن قاسم کے حالات میں سندھ کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے ’’بد‘‘ اور ’’سدنۃ البہ‘‘ پر بحث کی ہے، لکھتے ہیں۔
مَاليدُ إِلَّا كَكَنَائِسِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَبْيُوتِ نَيْرَانِ الْمَجُوسِ .
بحواله جواهر البحور.
’’یعنی ’’بد‘‘ عبادت خانہ ہے جیسا کہ عیسائیوں کے گرجے ، یہود کے کیسے اور آتش پرستوں کے آتش کدے ہیں، جن میں (غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے)‘‘
پھر رقم طراز ہیں:
وَالْبُدُّ فِيْمَا ذَكَرُ وا مَنَارَةً عَظِيمَةٌ يُتَّخَذُ فِي بِنَاءٍ لَهُمْ فِيْهِ صَنَمٌ أَوْ أَصْنَام.
’’یعنی محققین کے بیان کے مطابق بدایک بہت بڑا منارہ ہے، جو کسی ایسے مکان پر بنایا جاتا ہے جس میں ایک یا ایک سے زیادہ مورتیاں رکھی ہوئی ہوں۔“
اس سے آگے چل کر لکھتے ہیں :
وَكَانَ بُدُ الْمُلْتَانِ تُهْدَى إِلَيْهِ الْأَمْوَالُ ، يُندَرُ لَهُ النَّدْرُ ، وَيَحَجُ إِلَيْهِ أَهْلُ السَّنْدِ ، فَيَطُوفُونَ بِهِ ، وَيَحْلِقُونَ رُهُ وَسَهُمْ عِنْدَهُ ، وَيَزْعَمُونَ أَن صَنَمًا فِيْهِ هُوَ أَيُّوبُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ .
’’یعنی ملتان کا ’’بد‘‘ بہت بڑا مندر تھا ، اس کے لیے اموال کے تحفے تحائف لائے جاتے ، اس کے لیے منتیں مانی جاتی تھیں، اہل سندھ اس کے حج کے لیے آتے تھے، سر منڈاتے تھے اور کہتے تھے کہ جو بہت اس کے اندر ہے وہ سیدنا ایوبؑ ہیں ۔‘‘
غور کریں! کیا فرق ہوا ؟ صرف یہ کہ وہ ان جگہوں میں اولیاء و انبیاء کے بُت رکھ کر پوجتے تھے ، اور مسلمان ان عمارات میں بزرگوں کی قبروں کی پوجا کرتے ہیں، وہ ان بزرگوں کی نذریں مان کر ’’سدی البد‘‘ کو کھلاتے تھے ، اور یہ قبروں کے مجاورین اور عاکفین قبور کو نیازات کھلانے میں دین و دنیا کی سعادت سمجھتے ہیں:
(( مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ))
ابو داؤد، کتاب اللباس، باب الشهرة ، رقم : ٤٠٣١ – البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کیا ہے۔ إرواء الغليل ، رقم: ١٢٦٩۔
’’جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے ، وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔‘‘