شرک کے چور دروازے: عرس اور میلے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

عرس اور میلے

عربی لغت کی رُو سے ’’ع رس‘‘ کا مادہ شادی اور اس کے متعلقات میں عام طور پر مستعمل ہے ۔
مصباح اللغات ہیں: ۵۴۲

مگر موجودہ تصوف میں ’’عرس‘‘ اس میلے کو کہتے ہیں جو حقیقی اور فرضی قبروں پر سال بہ سال رچایا جاتا ہے۔
عرس اور میلے از مولانا عطاء اللہ حنیف

قبور و مزارات پر سالانہ اجتماع عرس بھی شرک کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ’’تاریخ انگلستان‘‘ سے معلوم پڑتا ہے کہ عیسائیوں کے پادریوں نے ایسے اجتماعات مقرر کر رکھے تھے ۔ رومن کیتھولک میں خانقاہ پرستی کا شدت سے رواج تھا۔ خانقاہوں کے نام جاگیریں اور اوقاف کثرت سے تھے ۔ جن پر پاپوں کے چیلے قابض رہتے تھے۔ جو زائرین سے ہدیے اور نذرانے وصول کر کے انہیں ’’معافی نامے‘‘ لکھ دیتے تھے، اور ’’معافی نامے‘‘ لینے والوں کو پورا یقین دلایا جاتا تھا کہ ان معافی ناموں کی بدولت انہیں مرنے کے بعد بُرے اعمال کی سزا بھگتے بغیر نجات ابدی حاصل ہو جائے گی ، بد چلن مجاوروں کی وجہ سے خائفا ہیں فحاشی اور سیاہ کاری کا مرکز بن گئیں اور عیسائی مذہب کا تصور صرف اس حد تک محدود ہو گیا کہ ’’ان خدائی اڈوں‘‘ پر کسی نہ کسی صورت میں پہنچ کر سند نجات حاصل کر لینا ہی سعادت کی کھلی دلیل ہے ۔
تاریخ انگلستان

اسی طرح اہل ہند میں قدیم سے یہ رسم موجود ہے کہ وہ حصول مغفرت اور تحصیل مقاصد اور دیگر اغراض کے لیے ایک دفعہ مزعومہ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر پہنچ جانے کو کامیابی اور کامرانی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہنود اسی طرح اسی غرض سے آج بھی گنگا جمنا وغیرہ پر ہر سال جمع ہوتے ہیں، نذریں اور نیازیں دیتے ہیں، اور سادھوؤں کے حضور نذرانے پیش کر کے سند نجات حاصل کرتے ہیں ، اور اس موقع پر وہاں اس قدر اناج اور مال وز ر جمع ہو جاتا ہے کہ کسی متمول حکومت کا ’’خزانہ عامرہ‘‘ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

بالکل یہی کیفیت نام نہاد مسلمانوں کی ہے بلکہ یہ لوگ اس سے بھی زیادہ التزام و انتظام اور عقیدت کے ساتھ قبروں پر میلے لگاتے ہیں اور اجتماعات کرتے ہیں، اور ہر علاقہ سے ان در گاہوں پر پہنچنے کے لیے شد رحال کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ ان درگا ہوں پر پہنچتے ہیں تو وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہند و میلہ گاہوں میں بجالاتے ہیں ، اور روضوں کا کلس دیکھتے ہی احرام باندھ لیتے ہیں، جبین نیاز کو جھکاتے ہیں، کوئی دہلیز پر جھکتا ہے تو کوئی سیڑھیوں پر ناک رگڑنے لگتا ہے ، کوئی طواف میں مصروف ہوتا ہے تو کوئی مجاور بن کر بیٹھا ہے ، کوئی کالے رنگ کے بکرے مجاورین قبر کے حوالے کر رہا ہے تو کوئی شمع وزیت اور درہم و دینار کی صورت میں اپنی نذر پوری کر رہا ہے ، الغرض ان اعراس اور میلوں میں رسوم مشرکانہ کی ایسی نمائش ہوتی ہے کہ جسے دیکھ کر انسان کا ایمان لرز اٹھتا ہے اور انسانیت اور خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

یاد رکھیے! نبی کریم ﷺ نے ایسا اجتماع خود اپنی قبر کے لیے بھی جائز نہیں رکھا ، آپ ﷺ نے وصیت فرمائی:

( لَا تَجْعَلُوا قَبْرِى عِيداً. ))
صحيح أبو داؤد للألباني، كتاب المناسك، باب زيارة القبور، رقم : ٢٠٤٢.

’’تم میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا۔“

عید میں تین چیزیں لازم ہیں:

ایک اجتماع، دوسری تعین وقت ، تیسرے فرحت ۔ تو ممانعت کا خلاصہ یہ ہوا کہ میری قبر پر کسی یوم معین میں سامان فرحت کے ساتھ اجتماع نہ کرنا۔ پس جب رسول کریم ﷺ کی قبر پر ایسا پر تکلف اجتماع وسیلہ جائز نہیں ، تو کسی اور کی قبر پر ایسا اجتماع کیوں کر جائز ہوگا ؟

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں:

(( هَذَا إِشَارَةٌ إِلَى سَةٍ مَدْخَلَ التَّحْرِيفِ كَمَا فَعَلَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى بِقُبُورِ أَنْبِيَاءِ هِمْ وَجَعَلُوهَا عِيْدًا وَمَوْسِمًا بِمَنْزِلَةِ الْحَجْ . ))
حجة الله البالغة، مبحث في الأذكار و ما يتعلق بها : ۷۷/۲۔

’’اس حدیث میں تحریف کے دروازے کی بندش کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ یہودی اور عیسائی اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ انہوں نے انہیں حج کی طرح موسم اور عید بنا ڈالا۔‘‘

تفہیمات الٰہیہ (۷۴/۲ ) میں لکھتے ہیں:

(( وَمِنْ أَعْظَمِ الْبِدْعَ مَا اخْتَرَعُوا فِي أَمْرِ الْقُبُورِ وَاتَّخَذُوهَا عِيدًا .))

’’اور بڑی بدعات میں سے یہ بھی ہے جو انہوں نے قبور اولیاء کے متعلق اختراع کر رکھا ہے ، اور انہیں میلہ گاہ بنا لیا ہے۔‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

(( وَهَذَا مَرَضُ …. بَعْضِ الْغُلَاةِ مِنْ مُنَافِقِى أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمِنَا هَذَا ))
حجة الله البالغة : ٦١/١۔

’’اور یہ وہ بیماری ہے جس میں اُمت محمدیہ ﷺ کے بعض غالی قسم کے منافق مبتلا ہیں۔‘‘

شاہ عبد العزیزؒ ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:

جمع شدن بر قبور که مردمان یک روز معین و لباسہائے فاخره و نفیس پوشیده مثل روز عید شادمان شده بر قبر یا جمع می شود رقص و مزامیر و دیگر بدعات مصنوعه مثل سجود برائے قبور و طواف کردن قبورے نما بند حرام و ممنوع است. بلکه بعض سجده کومے شود و ہمیں است محمول این دو حديث لا تَجْعَلُوا قَبْرِى عِيداً . اللهم لا تَجْعَلُ قَبْرِى وَثْنَا يُعْبَدُ الخ
ملحض از فتاویٰ عزیزیه : ۱۰/۱۔

’’یعنی قبروں پر سالانہ اکٹھ کرنا ، اور اس میں عید کی طرح لباس فاخرہ پہن کر جاتا، اس میں ناچ ، ڈھول ڈھمکے ، ان پر سجدے اور طواف سب حرام ہیں، بلکہ ان کے ارتکاب سے کفر و شرک تک کا خدشہ ہے ، دو احادیث پر محمول کرتے ہوئے ’’تم میری قبر کو عید گاہ نہ بنانا‘‘ اور ’’اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی عبادت کی جائے۔‘‘

اسی طرح قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ رقم طراز ہیں:

((لَا يَجُورُ مَا يَفْعَلُهُ الْجُهَّالِ لِقُبُورِ الْاَوْلِيَاء وَالشُّهَدَاء مِنَ السُّجُودِ وَالطَّوافِ حَوْلَهَا ، وَالْخَاذِ السُّرْجِ وَالْمَسَاجِدِ عَلَيْهَا ، وَمِنَ الْإِجْتِمَاعِ بَعْدَ الْحَوْلِ كَالْاعْيَادِ وَيُسَمُّونَهُ عُرُسًا . ))
تفیسر مظهری : ٦٥/٢۔

’’اور یہ جو جاہل ( پیر اور مفاد پرست گدی نشین ) اولیاء اور شہداء کی قبروں پر چراغاں کرتے ہیں ، اور سجدے ، طواف کرتے ہیں، اور وہاں مسجدیں بناتے ہیں اور سال بہ سال عید کی طرح وہاں جمع ہونا جس کا نام انہوں نے عرس رکھا ہوا ہے، قطعا نا جائز ہے۔‘‘

مولا نا محمد اسحاق لکھتے ہیں:

((مقرر کردن روز عرس جائز نیست.))
اربعین مسائل ، ص: ۲۸۔

’’یعنی عرس کرنا جائز نہیں۔‘‘

پس شریعت اسلامیہ کی رُو سے عرس کرنا ، فرض ہے نہ واجب ، سنت ہے اور نہ مستحب، بلکہ احادیث نبویہ ﷺ میں صراحتاً اعراس کی ممانعت آئی ہے ، کیونکہ ان میں ایک تو مشرکین کے ساتھ مشابہت ہے، دوسرا یہ شرک کا زبر دست ذریعہ ہیں، نیز ان میلوں میں بے شمار سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی نقصانات ہیں، جن کی تفصیل کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔ تعجب یہ ہے کہ ان افعال شنیعہ کا ارتکاب کرنے والے حضرات صوفیہ کے نام اور حنفی مکتب کی تقلید کا دم بھرتے ہیں، حالانکہ ان صوفیاء کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اسلام کا صافی چشمه ان بدعات سے آلودہ نہ ہو، اور اصحاب علم و تحقیق حنفیہ کرام واشگاف طور پر ان مشرکانه رسوم و عادات کی تردید کرتے رہے ہیں جیسا کہ ہم نے ان کے اقوال ذکر کیے ہیں۔
(فافهم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے