شرک کا ایک چور دروازہ معجزات اور کرامات میں غلط فہی ہے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

معجزات اور کرامات میں غلط فہمی

شرک کا ایک چور دروازہ معجزات اور کرامات میں غلط فہی بھی ہے ۔ جن اشخاص سے خرق عادت افعال سرزد ہوتے ہیں، ان کے بارے میں لوگوں کو اولاً یہ خیال آتا ہے کہ یہ خود الہ تو نہیں ہیں لیکن ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات ضرور موجود ہیں، وگرنہ ایسے افعال ان سے کیونکر سرزد ہوتے جو انسانی قدرت سے بالاتر ہیں، اور پھر یہی خیال رفتہ رفتہ دیوتا اور اوتار تک ترقی کی منازل طے کرتے کرتے بالآخر معبود تک پہنچ جاتا ہے۔

سیدنا عیسیؑ کو اس بنیاد پر لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اور اس بنیاد پر فی زمانہ رسول اللہ ﷺ کو اوصاف الہٰی میں شریک کیا جارہا ہے۔

یقینا انبیاء کرام سے معجزات صادر ہوتے ہیں۔ یہ امر نبوت کے خصائص میں سے ہے۔ اور کرامات اولیاء بھی اپنی جگہ برحق ہیں، لیکن کوئی ایسا فن نہیں ہے جسے کوشش سے حاصل کیا جائے ، جیسے ساحر اور مسمریزم کے بعض مشاق حاصل کر لیتے ہیں، بلکہ یہ سراسر تائید آسمانی ہوتی ہے جو ضرورت کے مطابق ( اللہ ) کسی نبی یا ولی کے ہاتھ پر ظاہر کر دیتا ہے۔ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

’’کرامت سب کی وہی ہوتی ہے، اور وہ جو کسب سے حاصل بھانمتی کا تماشا ہے ، لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔‘‘
ملفوظات، بحصه چهارم، ص: ٣٤٥، طبع حامد اینڈ کمپنی، لاہور۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی تائید جن نشانیوں سے کی ان میں ان کے کسب عمل اور اثر کا کوئی دخل نہ تھا، حتی کہ ان کی نشانیوں میں بھی نہیں کی جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موجب خودان کی ارادی حرکت سے پیش آتی تھیں۔ کیا آپ نے نہیں ملاحظہ کیا کہ موسیٰؑ کس طرح ڈر گئے تھے، جب ان کی لاٹھی زندہ سانپ بن گئی تھی؟ چنانچہ بھاگ نکلے اور جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے ڈر دور نہیں کیا واپس نہیں ہو سکے تھے۔

(فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(20)قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(21))

(طه: ۲۱۰۲۰)

’’پس انہوں نے اسے زمین پر ڈال دیا، تو وہ اچانک سانپ بن کر دوڑنے لگی ، اللہ نے کہا: اسے پکڑ لیجئے اور ڈریئے نہیں، ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے ۔‘‘

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو ان کی قلت و بے سروسامانی کے باوجود اس لئے فتح ہوئی کہ اللہ نے فرشتوں کے ذریعہ اُن کی مدد کی ، اور اُن کے دلوں کو مضبوط کیا، اور کافروں کو ذلیل کیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔

جب نبی کریم ﷺ نے دعا کرنے کے بعد خیمہ سے نکل کر مٹھی بھر مٹی لے کر مشرکین کی طرف پھینکی، تو اسے ان کے چہروں تک پہنچایا، اس لئے کہ ایک مٹھی مٹی ایک بڑے لشکر کی آنکھوں تک انسانی طاقت کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتی ، وہ اللہ کی ذات تھی جس کی قدرت کی یہ کاریگری تھی۔

(وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ)

(الأنفال : ١٧)

’’اور (اے میرے رسول !) آپ نے ان کی طرف مٹھی نہیں پھینکی ، بلکہ اللہ نے چھینکی تھی ۔‘‘

عام لوگوں میں یہ غلط اور فاسد عقیدہ انبیاء کے متعلق پیدا ہو گیا تھا کہ وہ براہِ راست عالم کائنات کے تصرف پر قادر ہیں۔ چنانچہ موجود انجیل کے مصنفین نے عیسیؑ کے معجزات کو جس طرح پیش کیا ہے اس نے عیسائیوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کر دیا ہے کہ یہ تمام کائنات عیسیؑ کے قبضہ قدرت میں تھی۔ اور وہ اس میں جس طرح چاہتے تھے تصرف کرتے تھے ، یہی وہ بنیادی پتھر ہے جس پر موجودہ عیسائیت کی بنیاد ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ توحید کی عمارت اس پر قائم نہ رہ سکی، قرآن مجید نے انتہائی شدت اور اصرار کے ساتھ یہ حقیقت واضح کی ہے کہ معجزات اور نشانیاں پیغمبر کی قوت اور ارادہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت اور مشیت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ)

(العنكبوت : ٥٠)

’’آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر لقمان سلفی حفظ للہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؟

’’مشرکین مکہ اپنے کفر و شرک پر اصرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر محمد ﷺ اپنے دعوی نبوت میں صادق ہے تو گزشتہ نبیوں کی طرح اس کے رب نے اسے بھی کچھ مادی نشانیاں کیوں نہیں دی ہیں؟ تو اللہ نے آپ ﷺ کی زبانی ان کا جواب دیا کہ معجزات کا مالک تو اللہ ہے، وہ اپنی مرضی سے جب اور جسے چاہتا ہے دیتا ہے، کوئی دوسرا اس پر قادر نہیں ہے، میرا کام تو صرف لوگوں کے سامنے پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ اللہ کے دین کو بیان کر دینا ہے۔“

دوسرے مقام پر فرمایا:

((وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ))

(الرعد : ۳۸)

’’اور کسی رسول کو یہ قدرت حاصل نہیں تھی کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی نشانی لاسکے۔‘‘

سیدنا عیسیؑ کے ہاتھ پر مادر زاد اندھے، بینا اور کوڑھی صحت یاب ہو جاتے تھے، بلکہ مردے زندہ ہو جاتے تھے، ان معجزات کا ذکر سورۃ آل عمران آیت نمبر (۴۹) میں ہوا ہے، جب کہ آغاز میں بھی ان کو اللہ کی قدرت کی نشانی کہا گیا ہے ۔ ( قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ ) اور آخر میں بھی ان کو نشانی کہا گیا ہے۔( إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ ) ’’آيت‘‘ سے مراد معجزہ ہے جو اللہ کے کارساز اور متصرف مافوق الاسباب ہونے کی بھی دلیل ہے، اور رسول کی صداقت و رسالت کی دلیل بھی۔ اس آیت میں دو مرتبہ (باذن الله) کا ذکر ہوا ہے۔ انہیں معجزات کا ذکر ’’سورۃ المائدہ‘‘ آیت نمبر (۱۱۰) میں اس طرح ہوا ہے کہ چار مرتبہ (یاذنی) کا اعادہ ہوا ہے۔ (یاذنی) اور (باذن الله) سے اللہ کا حکم تکوینی مراد ہے، یعنی یہ سب کام خود اللہ تعالی نے اپنے تکوینی حکم اور (كُن فَيَكُونِی) قوت سے کئے تھے۔ سیدنا عیسیؑ تو صرف مظہر یعنی جائے ظہور تھے اور اسی مظہر ہونے کی وجہ سے اُن معجزات کی نسبت عیسیؑ کی جانب کی گئی ہے۔ ’’سورۃ المائدہ‘‘ کی محولہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی تفسیر کبیر میں رقم کرتے ہیں:

((إِنَّمَا أَعَادَ بِإِذْنِي تَاكِيْدًا لِكَوْنِ ذَلِكَ وَاقِعًا بِقُدْرَةِ اللَّهِ وَتَخْلِيقِهِ لَا بِقُدْرَةِ عِيسَى وَإِيْجَادِهِ.))

’’باذنی‘‘ کی تکرار تاکید کے لئے کی گئی ہے، اس لئے کہ یہ کام اللہ کی قدرت اور تخلیق سے ہوئے تھے ۔ عیسیؑ کی قدرت اور اُن کی ایجاد سے نہیں ہوئے تھے۔‘‘

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں:

((ذِكْرُ الْآذَانِ فِي هَذِهِ الْأَفَاعِيلِ إِنَّمَا هُوَ عَلَى إِضَافَةِ حَقِيقَةِ الْفِعْلِ إِلَى الله .))

’’اذن الہیٰ کا ذکر ان افعال میں اس لیے ہوا ہے کہ حقیقت میں یہ کام اللہ ہی کے تھے ۔‘‘

نبی ﷺ سے جب لوگوں نے معجزات کے حالات کیے تو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو ان کے مقابلہ میں یہ تلقین فرمائی۔

((قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا))

(بني إسرائيل : ٩٣)

’’آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے، میں تو صرف ایک انسان ہوں جسے اللہ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

کس قدر ستم کی بات ہے کہ عیسائیوں کی طرح معجزات کی اصل حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض مسلمان بھی اس سے دھوکا کھا گئے ہیں کہ معجزات و کرامات بھی دوسرے ہنروں کی طرح کسبی چیزیں ہیں، انبیاء و اولیاء جب چاہیں ان کو دکھا سکتے ہیں، اور وفات کے بعد بھی ان سے معجزات و کرامات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ برزخی حیات میں اس حد تک ’’غلو‘‘ سے کام لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ! یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ’’انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں۔‘‘
ملفوظات حصه سولم، ص: ٢٧٦.

ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ بزرگ اپنے غیبی تصرف کے ذریعے ان سے تکلیف دور کرتے ہیں اور انہیں نفع پہنچاتے ہیں، اسباب اور مسببات سے الگ یہ تصرف ان کی اصطلاح میں کرامت کہلاتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کا تصرف واختیار اللہ تعالی ہی سے خاص ہے۔ اگر چہ یہ لوگ اپنے ان معبودوں کو پروردگار، معبود، اور خالق نہیں سمجھتے ، مگر ناموں کا یہ اختلاف اس بارے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ لفظ اور نام اصطلاحی ہیں، خالق اور مخلوق ، رب اور مربوب میں فرق یہ ہے کہ پروردگار جسے چاہے نقصان پہنچائے ، اور جسے چاہے نفع دے، اللہ تعالی اسباب اور مسببات کا پابند نہیں۔ بلکہ جب چاہے اپنے پیدا کئے ہوئے اسباب سے کام لے، اور جب چاہے اس کے بغیر ہی کام کر دے، لیکن مخلوق کی یہ کیفیت نہیں ہے، وہ سراسر اسباب و مسببات کی پابند ہے، جو سب کے لئے یکساں طور پر مسخر کر دئیے گئے ہیں۔

لیکن لوگ ان کے علم و عمل میں اتنے ہی متفاوت درجے رکھتے ہیں جتنا کہ معقل و حواس و اعضاء کے لحاظ سے ان کی استعداد میں فرق ہوتا ہے۔ کسی علم وعمل کے ذریعے اب انسان نفع حاصل کرنے اور نقصان دور کرنے میں اس مقام تک پہنچ چکا ہے، جہاں تک قرون اولی کے لوگ اور امم سابقہ نہ پہنچ سکے۔

یادر ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف لوگوں کو معرفت و عبادت الہیٰ کا صحیح اور متقیم راہ دکھانا ہے، تا کہ ان کے اخلاق اور عادات درست ہوسکیں۔ بنابریں دنیا کے منافع انبیاء کرام اور ان کے بچے خلفاء اور اولیاء عظام سے طلب نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ اسباب سے حاصل کیے جائیں ، اسباب سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو نافع وضار ہو، ظالموں نے بعض انبیاء اور اولیاء کو طرح طرح کے مصائب میں مبتلا کیا ، یہاں تک کہ بعض کو قتل بھی کر ڈالا :

(وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّۙ )

(البقرة : ٦١)

’’اور وہ نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔‘‘

اس پر بھی یہ انبیاء اور اولیاء اپنی ذات سے تکلیف دور نہ کر سکے، اس لئے قرآن کریم میں اس کی بار بار تردید کر دی گئی ہے کہ جن چیزوں یا آدمیوں کی لوگوں نے پرستش شروع کر رکھی تھی یا کر رکھی ہے ، وہ نہ خود کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ اللہ کے ہاں سفارش کے ذریعہ اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

(وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ)

(النحل : ٧٣)

’’اور اللہ کے بجائے ان معبودوں کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ان کی روزی کے کسی بھی حصہ کے مالک نہیں ہیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں ۔‘‘

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے