نظر بد وغیرہ کے لیے شرک سے بچتے ہوئے دم کروانا جائز ہے
➊ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعرضوا على رقاكم لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك
”مجھ پر اپنے دم پیش کرو ، دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک کا شائبہ نہ ہو ۔“
[مسلم: 2200 ، كتاب السلام: باب لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك ، ابو داود: 3886]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم سے منع فرمایا پھر آل عمرو بن حزم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ایسا دم ہے ہم اس کے ساتھ بچھو کے ڈسے ہوئے کو دم کرتے ہیں اور آپ نے دم سے منع فرما دیا ہے (پھر انہوں نے وہ دم بھی آپ کے سامنے پیش کیا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أرى بأسا فمن استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل
” (ان میں تو ) میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا لٰہذا تم میں سے جو بھی اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ایسا کرے ۔“
[مسلم: 2199 ، كتاب الاسلام: باب استحباب الرقية من العين والنملة والحمة والنظرة]
درج بالا دونوں روایات سے ثابت ہوا کہ جاہلیت کا دم بھی اگر شرک سے پاک ہو تو جائز ہے ۔
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
رخص رسول الله فى الرقية من العين والحمة والنملة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد کی وجہ سے کسی زہریلے جانور کے کاٹنے کی وجہ سے اور جسم پر نکل آنے والے چھالے کی وجہ سے دم کی اجازت دی ہے ۔“
[مسلم: 2196 ، كتاب السلام: باب استحباب الرقية من العين والنملة والحمة والنظرة ، ترمذى: 2056 ، ابن ماجة: 3516]
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان ينفث على نفسه فى المرض الذى مات فيه بالمعوذات فلما ثقل كنت أنفث عليه بهن وأمسح بيده نفسه لبركتها فسألت الزهري كيف ينفث؟ قال: كان ينفث على يديه ثم يمسح بهما وجهه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا دم کرتے تھے ۔ پھر جب آپ کے لیے دشوار ہو گیا تو میں ان کا دم آپ پر کیا کرتی تھی ۔ اور برکت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر پھیر لیتی تھی ۔ پھر میں نے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کرتے تھے انہوں نے بتلایا کہ اپنے ہاتھ پر دم کر کے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے ۔“
[بخاري: 5735 ، كتاب الطب: باب الرقى بالقرآن والمعوذات ، مسلم: 2192 ، احمد: 104/6 ، ابن ماجة: 3529]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
أمرني رسول الله أن يسترقى من العين
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر (معوذتین سے ) دم کر لیا جائے ۔“
[بخاري: 5738 ، كتاب الطب: باب رقية العين ، مسلم: 2195 ، احمد: 63/6]
جن احادیث میں دم کو شرک کہا گیا ہے ان سے مراد ایسے دم ہیں جو شرک پر مبنی ہوں یا جن میں یہ اعتقاد ہو کہ یہی شفا دینے والے ہیں ۔
[نيل الأوطار: 297/5 – 298 ، تحفة الأحوذى: 209/6 – 210]
(قرطبیؒ) دم کی تین قسمیں ہیں:
➊ جاہلیت کا وہ دم جس کا معنی معلوم نہ ہو ۔ اس سے اجتناب واجب ہے کیونکہ اس میں شرک ہو سکتا ہے یا کم از کم یہ شرک تک پہنچا سکتا ہے ۔
➋ جو دم اللہ کے کلام یا اللہ کے ناموں کے ذریعے ہو وہ جائز ہے اور اگر سنت سے بھی ثابت ہو تو اسے کرنا مستحب ہے ۔
➌ وہ دم جو غیر اللہ کے ناموں کے ساتھ کیا جائے مثلاً فرشتے ، صالحین یا مخلوق میں سے عظیم اشیا جیسے عرش وغیرہ ۔ نہ تو ان سے اجتناب واجب ہے اور نہ ہی یہ مشروع ہیں لیکن اگر انہیں ترک کر دیا جائے تو یہی بہتر ہے ۔
[فتح البارى: 353/11]
(نوویؒ) اس بات پر اجماع ہے کہ دم کرتے ہوئے بغیر تھوک کے پھونک مارنی چاہیے ۔
[شرح مسلم: 438/7]