شرک کی حقیقت :
شرک مجرد سے اسم مصدر ہے، اور مزید فیہ سے ” اَشْرَكَ‘‘ آتا ہے۔ بمعنی حصہ، کہا جاتا ہے کہ ”بِیعَ شِرُكَ مِنْ دَارِہ “ اس کے گھر کا ایک حصہ بیچ دیا گیا۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ)
(سبا: ۲۲)
’’اور نہیں ہے ان دونوں ( زمین و آسمان ) کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ۔“
دوسرے مقام پر فرمایا:
(اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِؕ)
(فاطر: ٤٠)
’’کیا ہے ان کے لئے آسمانوں کی پیدائش میں کوئی حصہ ؟“
اور موسیؑ کی اللہ سے (دعا ہارونؑ کو بطور معین مانگنے کے) بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ سورۃ طٰہٰ ( آیت:۳۲) میں ہے کہ موسیؑ نے دعا فرمائی:
(وَأَشْرِكْهُ فِىٓ أَمْرِى )
” اور میری دعوتی مہم میں اس کو میرا حصہ دار بنا دے۔“
’’الشركة“ دو یا دو سے زیادہ حصوں کو اس طرح ملانا کہ ایک دوسرے سے امتیاز مشکل ہو، اور”شراك‘‘ جوتے کے تسمے کو کہتے ہیں۔
المعجم الوسيط، لسان العرب المنجد، مصباح اللغات، ماده ش، ر، ك.
ہرسہ معانی کے اعتبار شرک کا شرعی مفہوم یہ ہوگا کہ ”اللہ کی ذات، صفات اور عبادت میں کسی غیر کو حصہ دار سمجھنا۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ شرک کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
(( وَجُمَّاعُ الْأمْرِ اَنَّ الشَّرُكَ نَوعَانٍ شِرْكٌ فِي الرَّبُوبِيَّةِ بِأَنْ يُجْعَلَ لِغَيْرِهِ مَعَهُ تَدْبِيرٌ ….. فَبَيَّنَ أَنَّهُمُ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّة إستقلالاً وَلَا يُشْرِكُونَهُ فِى شَيْءٍ مِنْ ذَالِكَ وَلَا يُعِينُونَهُ عَلَى مُلْكِهِ ـ شِرْكٌ فِي الْأُلُوهِيَّةِ بِأَنْ يَدْعُوَ غَيْرَهُ دُعَاءَ عِبَادَةٍ أَوْ دُعَاءَ مَسْتَلَةٍ . ))
اقتضاء الصراط المستقيم ، ص : ٣٥٧ طبع ١٩٥٠ء
’’ خلاصہ کلام اور جامع بات یہ ہے کہ شرک کی دوقسمیں ہیں! ایک ہے شرک فی الربوبیتہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو کائنات کی تدبیر اور تصرف و پرورش میں شریک کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ مشرکین کے یہ خود ساختہ الہ نہ تو ذاتی طور پر کسی چیز کا ذرہ برابر اختیار رکھتے ہیں، نہ اس کے ساتھ شریک ہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی اور حکومت میں اس کے مددگار ہیں، اور دوسری قسم ہے شرک فی الا لوھیۃ ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی غیر کو عبادت کے طور پر یا غیبی مدد کے لیے پکارا جائے ۔“
اور ان کے شاگر درشید حافظ ابن قیمؒ یوں رقم طراز ہیں:
وَالشَّرُكُ فَاحْذَرُهُ فَشِرُكْ ظاهر
ذَالْقِسْمِ لَيْسَ بِقَابِل الغفران
وَهُوَ اتخاذ الند لِلرَّحْمَنِ
أَيًّا كَانَ مِنْ حَجَرٍ وَّمِنْ إِنْسَانِ
يُدْعَوْهُ اَوْ يُرْجَوْهُ ثُمَّ يَخَافُهُ وَيُحِبُّهُ كَمَحَبَّة الدَّيَّان
الكافيه الشافيه فى الانتصار للفرفة الناجيه ، المعروف بقصيدة نونيه ، ص : ١۷۰. طبع هند، سنه ٥١٣٥٦
’’ شرک سے بچو! ایک قسم شرک کی بالکل کھلا شرک ہے، یہ قسم بخشے جانے کے قابل نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنادیا جائے خواہ پتھر ہو یا انسان ۔ اس طرح کہ مصیبت کے وقت اس کو مدد کے لیے پکارا جائے یا اس سے نفع پہنچانے کی امید کی جائے ، یا غیبی طور پر ضرر پہنچانے کا خوف کیا جائے یا اس کے ساتھ اللہ کی طرح محبت کی جائے۔‘‘
الحافظ، المفسر ، الفقيه ، الواعظ ابن الجوزیؒ اپنی کتاب ’’ تذكرة أولى البصائر في معرفة الكبائر‘‘ (ص: ۱۹) پر شرک کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
((اَلشَّرَكُ: هُوَ أَن تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدَّا، أَوْ تَعْبُدَ مَعَهُ غَيْرَهُ مِنْ حَجَرٍ أَوْ بَشَرٍ، أَوْ شَمْسٍ، أَوْ قَمَرٍ، أَوْ نَبِي، أَو جِنّي، أَو نَجم، أو مَلَك، أو شَيخ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ.))
’’ شرک یہ ہے کہ آپ کسی کو اللہ کا شریک سمجھیں، یا اس کے ساتھ کسی غیر مثلاً پتھر، انسان ، سورج، چاند، نبی، جن، ستارے، فرشتے یا کسی شیخ کی عبادت کرنا شروع کر دیں۔“
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ شرک کی حقیقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
((حَقِيقَةُ الشَّرُكِ أَن يَعْتَقِدَ إِنْسَانٌ فِي بَعْضِ الْمُعَظَّمِينَ مِنَ النَّاسِ اَنَّ الْآثَارَ الْعَجِيْبَةَ الصَّادِرَةَ مِنْهُ إِنَّمَا صَدَرَتْ لِكَوْنِهِ مُتّصِفًا بصِفَةِ مِنْ صِفَاتِ الْكَمَالِ مِمَّا لَمْ يُعْهَدُ فِي جِنْسِ الْإِنْسَانِ بَلْ يُخْتَصُّ بِالْوَاجِبِ جَلَّ مَجُدُهُ لَا يُوجَدُ فِي غَيْرِهِ إِلَّا أَن يَخْلَعَ هُوَ خِلْعَةَ الألوهِيَّةِ عَلَى غَيْرِهِ أَوْ يُغْنى غَيْرُهُ فِي ذَاتِهِ، وَيَبْقَى بِذَاتِهِ أَوْ نَحْوِ ذلِكَ مِمَّا يَظُنُّه هَذَا الْمُعْتَقِدُ مِنْ أَنْوَاعِ الْخُرَافَاتِ.))
’’ شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ، بزرگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھ لے کہ ان سے جو عجیب عجیب آثار و (کرامات) صادر ہوتی ہیں وہ اس لئے صادر ہوئیں کہ وہ ان صفات کمال سے موصوف ہیں۔ جو کہ جنس انسانی میں نہیں ہوتے ، بلکہ واجب جل مجدہ کے ساتھ ہی مخصوص ہیں،اور غیر اللہ میں صرف اس صورت میں پائے جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غیر پر خلعت الوہیت ڈال(پہنا) دے یا وہ غیر اللہ کی ذات میں فنا اور اس ذات کے ساتھ باقی ہو جائے یا ایسے کوئی دوسرا فاسد اور خرافاتی قسم کا عقیدہ رکھ لے۔“
شاہ صاحبؒ کی اس عبارت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمیشہ بڑی ہستیوں کو ہی اللہ تعالیٰ کا شریک اور حصہ دار بنایا جاتا ہے۔
لیکن الہٰیت میں ان کی پوزیشن کیا ہوتی ہے مستقل یا غیر مستقل؟ پس اس کے متعلق رقم طراز ہیں:
((وَمِنْهُمْ مَنْ اِعْتَقَدَ إِنَّ اللهَ هُوَ السَّيِّدُ وَهُوَ المُدَيّرُ ، لكنهُ قَدْ يَخْلَعُ عَلَى بَعْضٍ عَبِيدِهِ لِبَاسَ الشَّرَفِ وَالثَّالِهِ، وَيَجْعَلُهُ مُتَصَرِّفًا فِي بَعْضِ الأمُورِ الْخَاصَّةِ، وَيَقْبَلُ شَفَاعَتَه فِى عِبَادِهِ بِمَنزِلَةِ مَلِكِ الْمُلُوكِ يَبْعَثُ عَلى كُلِّ قطرٍ مَلَكًا وَيُقَلِّدُهُ تَدْبِيرَ تِلْكَ الْمَمْلَكَةِ فِيمَا عَدَا الأمور العِظَامِ . ))
حجة الله البالغة ۶١/١ مطبوعه فاران اکیڈمی، لاهور
” اور مشرکین کا اعتقاد تھا کہ اللہ سردار ہے، اور وہی مد بر ہے ، مگر گاہے بگاہے وہ اپنے کسی بندے کو شرف والوہیت کا خلعت عطا کر دیتا ہے، اور بعض خاص خاص کاموں میں اسے متصرف بنا دیتا ہے، اور بندوں کے حق میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔ یہ ویسا ہی درجہ ہے جیسے کہ بادشاہ اپنی سلطنت کے ہر علاقے میں ایک ملک (حاکم) بھیج دیتا ہے اور اہم امور کے علاوہ باقی باتوں میں ان (حکام ) کو اس مملکت کا انتظام سپر د کر دیتا ہے۔“
قرآن مجید کی روشنی میں شرک کو پہچانئے !
قرآن مجید میں جہاں کہیں (اَفَلَا تَذَكَّرُونَ) [يونس : ٣، هود : ٢٤]، (آنی تُسْحَرُونَ) [المؤمنون: ۸۹] ، (أَنَّى يُؤْفَكُونَ) [المائدة : ٧٥] اور (بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ) [البقرہ : ٤٤] کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہاں شرک کی نفی کی گئی ہے، اسی طرح جہاں ”سُبْحَانَ“ اور ” تعالٰی “ ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہاں بھی شرک کی تردید ہوتی ہے ، لہذا اس قاعدہ اور اصول کو ذہن نشین کر کے قرآنِ مجید کا مطالعہ کریں تو شرک کی حقیقت خود بخود عیاں ہو جائے گی۔ اور ذہن انسانی فیصلہ کرتا جائے گا کہ واقعتاً یہی وہ صفات ہیں جو غیر اللہ میں ثابت کر دی جائیں تو شرک لازم آتا ہے۔ چنانچہ :
(أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (19))
(الانعام : ١٩)
’’ کیا تم لوگ واقعی اس بات کی گواہی دو گے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں؟ آپ کہیے کہ میں تو ایسی گواہی نہیں دیتا ہوں ، آپ کہیے کہ وہ اکیلا معبود ہے، اور میں بے شک ان معبودوں سے اظہار براءت کرتا ہوں جنہیں تم لوگ اللہ کا شریک بناتے ہو۔“
دوسرے مقام پر فرمایا:
(وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌؕ-وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْۚ-وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ(121))
(الأنعام: ۱۲۲)
” اور اس جانور کا گوشت نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ یقیناً فسق ہے، اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں، تاکہ وہ لوگ تم سے جھگڑیں، اور اگر تم ان کی بات مان لو گے، تو بے شک تم مشرک ہو جاؤ گے۔“
(فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (190))
(الأعراف : ١٩٠)
’’پس جب اللہ نے ان دونوں کو ایک تندرست بچہ دیا، تو اللہ نے انہیں جو دیا اس میں اللہ کا دوسروں کو شریک بنانے لگے، اللہ ان کے شرکیہ اعمال سے برتر و بالا ہے۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ(26))
(الأنبياء : ٢٦)
’’اور انہوں نے کہا کہ رحمن نے اپنی اولاد بنا رکھی ہے، وہ اس عیب سے پاک ہے۔“
ارشادِ باری تعالیٰ:
(وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(91))
(المؤمنون : ٩١)
’’اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہو جاتا ، اور ان میں سے ہر ایک دوسرے پر چڑھ بیٹھتا، اللہ ان تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جنہیں لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘
اور اس کے معًا بعد فرمایا:
(عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(92))
(المؤمنون : ٩٢)
” وہ غائب و حاضر کا جاننے والا ہے پس وہ ان معبودوں سے بہت ہی بلند و بالا ہے جنہیں مشرکین اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔“
اور سورۃ القصص میں فرمایا :
(وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ-مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(68))
(القصص : ٦٨)
’’اور آپ کا رب جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے (اپنی رسالت کے لئے ) چن لیتا ہے، ان مشرکین کو کوئی اختیار نہیں ( کہ وہ ہمارے شریک چنیں ) اللہ تمام عیوب سے پاک اور مشرکوں کے شرک سے بلند و بالا ہے۔“
اور سورۃ الروم میں ارشاد فرمایا:
(اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ شُرَكَآىٕكُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(40))
(الروم : ٤٠)
” وہ اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، پھر تمہیں روزی دی ہے، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے پھر تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ہے جوان میں سے کوئی کام کرتا ہے۔ اس کی ذات پاک و بے عیب ہے، اور ان کے شرک سے بہت بلند ہے۔
اور سورۃ الحشر میں ارشاد فرمایا:
(هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(23))
(الحشر: ۲۳)
” وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ شہنشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے ، سلامتی دینے والا ہے، امن وسکون عطا کرنے والا ہے،سب کا نگہبان ہے، زبردست ہے، ہر چیز پر غالب ہے، شانِ کبریائی والا ہے، اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔“
آیات کا ماحصل :
مذکورہ بالا آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک نام ہے مخلوق پرستی کا ، یعنی یہ کہ
➊ آپ اعتقاد رکھیں کہ اللہ بھی الٰہ ہے، اور اس کے ساتھ یہ بھی الٰہ ہیں۔
➋ کسی مخلوق کو انسانی زندگی کے لئے شارع و قانون ساز ما نیں۔
➌ کسی مخلوق کو پرستش کا مستحق سمجھیں، اولا د دینے والا ، اور روزی رساں بھی اسی کو مانتے رہیں۔
➍ کسی مخلوق کو خالق کا ئنات کا بیٹا، بیٹی ماں ، باپ یا بیوی شوہر قرار دیں۔
➎ کسی مخلوق کے بارے میں تصور ہو کہ وہ عالم الغیب ہے۔
➏ کسی مخلوق کو خالق، روزی رساں، زندگی بخشنے والا اور مارنے والا سمجھیں ۔ (اسی کا نام شرک فی التصرف ہے۔)
➐ کسی مخلوق کو اللہ عز وجل کے اسماء وصفات سے کسی اور کو متصف ماننا۔ (اس کا نام شرک فی الاسماء والصفات ہے۔)
غیر اللہ کے بارے میں یہ تصور ہو کہ وہ فوق الطبیعی (Supernatural) قوتوں کا مالک و مختار ہے۔
اہم فائده :
قرآن کریم کی ان آیات میں غور وفکر کرنے کے بعد شرک کی جو حقیقت واضح ہوتی ہے۔ وہ صرف لفظ ” شرک“ سے بھی سمجھ میں آ سکتی ہے، بشرطیکہ انسان فکر سلیم و صحیح کا مالک ہو۔
لفظ ” شرک“ کے معنی ہیں ” شراکت “، ” حصہ داری ‘‘ اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والے کو ” مشرک کہا جاتا ہے۔ اب جب تک کسی چیز میں فریقین کا ساجھا نہ ہو، وہ باہم شریک کیسے ہو سکتے ہیں؟
تو شراکت کے لئے حصے داری ضروری ہے۔ اب اگر مشرک عبادت میں اللہ کا حصہ نہیں دیتا، ساری عبادت غیر اللہ کی کرتا ہے تو اس کا یہ فعل شرک کیسے ہوگا ؟ اور وہ مشرک کیونکر بنے گا ؟ لفظ شرک کا تقاضا اور معنی ہی یہ ہے کہ؛
اللہ کی عبادت بھی کرے، اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت بھی کرے۔
اللہ کو شارع بھی مانے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شارع اور قانون ساز بھی مانے ۔
اللہ کو عالم الغیب بھی تصور کرے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی عالم الغیب سمجھے۔
اللہ کو خالق ، روزی رساں، زندگی بخشنے والا اور مارنے والا سمجھے اور اس کے ساتھ ساتھ بعینہ یہ عقیدہ کسی دوسرے کے متعلق بھی رکھے۔
اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو کہ وہ فوق الطبعی قوتوں کا مالک ہے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھے، وغیرہ۔
تب یہ شرک بنے گا، چنانچہ مفسر قرآن ، حبر الامہ سید نا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
((الْمُشْرِكُ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا غَيْرَهُ. ))
صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورة الرعد.
’’مشرک وہ ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرے کسی معبود کی عبادت کرے۔“
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
البتہ ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے وہ یہ کہ بعض کتابوں میں ” بالذات “ اور ” بالإستقلال “ کی قید لگی ہوئی ہے، یعنی ” شرک“ کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے، شرک کا معنی یہ ہے کہ ایسی قوت ، قدرت ، ملکہ ، صفت اور خاصہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص و مختص ہے اس کو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بالذات ثابت کیا جائے۔ اور اس کو متصرف فی الامور حقیقی طور پر مانا جائے۔
عقیدہ توحید اور حقیقت شرك، ص: ۱۵۸، از طاهر القادری
ازاله:
یاد رہے کہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی شرک کا ذکر ہے، وہاں ’’ شرك بالله‘‘ مذکور ہے۔ مثلاً ’’ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ “ ، ” وَمَنْ يُشْرِكُ بِاللهِ “ اور ” لَا يُشْرِكُنَ بِاللَّهِ “ وغيرها ۔
اس انداز بیان سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مشرک بنیادی طور پر اور بالذات اوّل ہمیشہ اللہ کی عبادت کرتا ہے، بعدہُ کبھی کسی غیر اللہ کی عبادت کر کے اسے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، تو نہ صرف مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے، بلکہ وہ مستقلاً ہمیشہ تو اللہ کی عبادت کرتے تھے ، ہاں کبھی کسی دوسرے کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح وہ شرک کے مرتکب ہو کر مشرک ٹھہرے، قرآن و حدیث میں اس اسلوب کے برعکس آپ کو کہیں دوسرا اسلوب نہیں ملے گا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ اول اور بالذات تو غیروں کی عبادت کرتے تھے، پھر کبھی اللہ عزوجل کی پرستش بھی کرتے تھے، نہ! ہرگز ایسا انداز بیان آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ فافہم وتدبر!
ثانياً:
استقلال يا بالذات کی قید قرآن وحدیث میں موجود نہیں اور نہ ہی اقوال سلف میں ، اور طاہر القادری جیسے جن لوگوں نے یہ قید بڑھائی ہے، ان کی یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ مخلوق کا اپنا وجود ہی جب ذاتی اور مستقل نہیں ہے، بلکہ عارضی ہے، تو اس کی کوئی بھی صفت کیونکر مستقل کہلا سکتی ہے۔ جس کی نفی کرنے کی نوبت آئے ، لہذا قرآن حکیم میں جن مقامات پر بندگانِ رب العالمین سے تخلیق و ترزیق ، ملک و تصرف، علم و اختیارات اور شفاعت وغیرہ کی نفی کی گئی ہے، اس سے مراد قوت عطائی اور عارضی ہی کی نفی ہے نہ کہ ذاتی اور مستقل کی ۔
مزید برآں مولانا غلام اللہ خان حنفی رقم طراز ہیں :
” جن کتابوں میں بالاستقلال یا بالذات کی قیدیں آئی ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے پیروں، فقیروں اور پیغمبروں کو طاقت دی ہے کہ جس وقت جو چاہیں جان لیں۔ یا جس کو چاہیں نفع یا نقصان پہنچا دیں۔ تو اس معنی کے بموجب حاصل کرنے میں بالعرض ہیں، اور اس طاقت کو استعمال کرنے میں مستقل ہیں یا بالذات کا یہ معنی بالعرض کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے، اور یہی معنی غیر اللہ کے لئے مانا کفر اور شرک ہے۔ تفسير جواهر القرآن.
شرک کے نقصانات :
➊ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ، قُلْنَا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: أَلْإِشْرَاكُ باللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَين .))
صحيح بخاري، كتاب الأدب، باب عقوق الوالدين من الكبائر، رقم: ٥٩٧٦.
’’ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا:
ضرور بتائیے ! اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا:
اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی۔“
➋ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(13))
(لقمان : ۱۳)
’’بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔“
فائدہ :
ظلم کہتے ہیں:
’’ کسی چیز کو اس کے اصل مقام ومحل سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کو ۔ “
المنجد، لسان العرب، معجم الوسيط، مادة ”ظلم“.
لہٰذا جس نے اللہ کے علاوہ کی پرستش کی ، یقیناً اس نے عبادت کو اپنی اصل جگہ سے ہٹا کر غیر محل میں استعمال کیا ، اور یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔
➌ میدانِ جنگ میں مشرک کا خون اور مال حلال ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ)
(التوبة : ٥)
’’پس جب امن کے (چار) مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں گھیر لو، اور ہر گھات میں لگنے کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔“
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے:
((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنّى دِمَاءَ هُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا . ))
صحیح بخارى، كتاب الإيمان، باب قوله تعالى فإن تابوا . فخلوا سبيلهم، رقم : ٢٥ .
” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ‘‘ کا اقرار نہ کر لیں ، اور جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو مجھ سے اپنے خون اور مال کی حفاظت کر لیں گے ، مگر اس کے حق سے ۔“
➍ مشرک کی تمام بھلائیاں برباد اور تمام اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرامؑ کی مقدس جماعت سیدنا ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحیی، اسماعیل ، يسع ، یونس اور لوطؑ کا ذکر خیر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے:
(وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(88))
(أنعام : ۸۸)
’’اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ۔“
حتی کہ خاتم الانبیاءﷺ کو بھی مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
(وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ-لَىٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(65))
(الزمر : ٦٥)
” اور آپ کو اور ان رسولوں کو جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر آپ نے اللہ کا کسی کو شریک بنایا تو آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا، اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
➎ مشرک کی بخشش نہیں ہوگی ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(48))
(النساء : ٤٨)
’’ بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے ، اور اُس کے علاوہ گناہوں کو جس کے لئے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔“
➏ مشرک پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ اور مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں پڑا رہے گا۔
(اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(72))
(المائده : ۷۲)
” بے شک جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔“
اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو سورہ اعراف کی آیت (۵۰) میں بھی بیان کیا ہے، فرمایا:
(وَنَادَى اَصْحَبُ النَّارِ اَصْحَبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالُوا إِنَّ اللهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَفِرِينَ ٥)
” اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو، یا اور کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے، تو اہل جنت کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کر دیا ہے۔
اس پر مستزاد آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ملاحظہ ہو، جس کے راوی سید نا عبداللہ بن مسعودؓ ہیں:
(( مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُوا لِلَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ . ))
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم : ٤٤٩٧ .
” جو شخص اس حال میں مرگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتا تھا ، تو وہ آگ میں داخل ہو گا ۔“
➐ مشرک اپنے معبودوں کو مختار سمجھتا ہے اور تصرفات الہیہ میں ان کو شریک کرتا ہے، اس لئے اسے دنیا میں کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے، تاکہ ان معبودوں کی کمزوری اس پر واضح ہو جائے ۔
(وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(58))
(الاسراء : ٥٨)
” اور (کفر و شرک کرنے والوں کی) کوئی بستی نہیں ، مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم اسے ہلاک کردیں گے یا سخت عذاب سے معذب کریں گے۔ یہ کتاب میں لکھا جا چکا ہے۔“
اس آیت پر شاہ عبدالقادرؒ لکھتے ہیں:
’’یعنی تقدیر میں لکھ چکے، ہر شہر کے لوگ ایک بزرگ ٹھہرا کر پوجتے ہیں کہ ہم اس کی رعیت ہیں اور اس کی پناہ میں ہیں۔ سو وقت آنے پر کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔“
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(88))
(المؤمنون : ۸۸)
’’اور وہی پناہ دیتا ہے، اور اس کے مقابل کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا ۔“
➑ مشرک کے لئے سفارش نہیں ہوگی ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے شفاعت کبریٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
((أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا من قلبه . ))
صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم: ۹۹ .
’’روز قیامت میری سفارش سے بہرہ مند وہ شخص ہوگا، جس نے خالصتاً تہ دل سے ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ‘‘ کہا ہوگا۔“
قرآنِ مجید میں ہے کہ نوحؑ نے اپنے بیٹے کے لئے سفارش کی ، تو یہ سفارش نہ صرف نامقبول ہوئی ، بلکہ خود سفارش سے ہی منع کر دیا گیا، کیونکہ وہ مشرک تھا، سورہ ھود آیت (۴۸) میں ہے:
(فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(46))
(هود: ٤٨)
” پس آپ ایسا سوال نہ کیجئے جس کا آپ کو کوئی علم نہ ہو، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادانوں میں سے نہ ہو جائیے ۔‘‘
ترجمه تيسير الرحمٰن لبيان القرآن.
یہی حال اپنے مشرک باپ کے لئے سیدنا ابراہیم کی سفارش کا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ : يَا رَبِّ أَنتَ وَعَدْتَنِى أَنْ لَا تُخْزِينِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ وَأَى خِزِي أَخْرَى مِنْ أَبِي الْاَبْعَدِ؟ فَيَقُولُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ إِنِّى حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ))
’’ابراہیم کہیں گے؛ اے رب! ’’تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے قیامت کے روز رسوا نہیں کرے گا ، لیکن اس رسوائی سے بڑھ کر اور کیا رسوائی ہوسکتی ہے کہ میرا باپ تیری رحمت سے دور ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرما ئیں گے :
” میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے ۔“
حضور ﷺ نے فرمایا:
((ثُمَّ يُقَالُ: يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ، فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِدِيحٍ مُلْتَطِحَ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ.))
صحیح بخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، رقم: ٣٣٥٠.
’’ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا وہاں پڑا ہوگا ، چنانچہ اسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
(فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ(2))
شرک بعثت نبوی ﷺ سے قبل اور مابعد :
قبل اس کے کہ ہم مشرکین مکہ کے شرک کی کیفیت کا تذکرہ کریں، جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی یا ان رسومات شرکیہ کا خاکہ پیش کریں جو آج کے اس دور میں لوگوں میں پائی جاتی ہیں انتہائی ضروری ہے کہ بعثت نبوی ﷺ سے قبل شرک کی صورتیں بیان کی جائیں، تاکہ شرک کا معنی و مفہوم مکمل طور پر سمجھ آ جائے ۔ کیونکہ شرک کی مکمل صورت گری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ آپ ﷺ سے پہلے کے شرک اور بعثت کے وقت کے شرک کو بیان نہ کیا جائے ۔
قوم نوحؑ :
یہ لوگ ’’ود ، سواع، یعوق ، یغوث اور نسر کوالٰہ مان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔
(وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ﳔ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاﭤ(23))
(نوح : ٢٣)
’’اور انہوں نے کہا کہ لوگو! تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو، تم ود کو نہ چھوڑو اور نہ سواع کو، نہ یغوث، یعقوق اور نسر کو۔“
اس لئے سیدنا نوحؑ نے صدا بلند کی:
(مَالَكُمْ مِّنْ إِلهٍ غَيْرِهِ)
(الأعراف : ٥٩)
”اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔“
اللہ رب العزت کی کبریائی وعظمت سے بڑھ کر ان کے دلوں میں ان ( پنجتن پاک) کی محبت اور وقار قائم تھا۔ اس لئے نوحؑ نے فرمایا:
(مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا(13))
(نوح: ۱۳)
’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے رب کی عزت و وقار سے نہیں ڈرتے ۔“
مشکلات میں اللہ تعالیٰ کے سوا پنجتن پاک کو مددگار سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں غرق کر دیا گیا تو ان کے اس عقیدہ کا بطلان ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
( فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا(25))
(نوح : ٢٥)
’’پس انہوں نے اللہ کے سوا مددگاروں کو نہیں پایا۔“
قوم ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام :
یہ لوگ شرک فی الاسماء کے مرتکب تھے، انہوں نے اپنے معبودانِ باطلہ کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے ، سیدنا ہودؑ کے ساتھ ان کا یہی جھگڑا تھا۔ اور اسی پر مجادلہ ہوتا رہا۔ جس کا ثبوت درج ذیل آیت کریمہ سے ملتا ہے:
اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ.
(الأعراف : ۷۱)
’’(یعنی ہودؑ نے کہا : ) کیا تم لوگ مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے اپنی طرف سے رکھ لئے ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ تعالیٰ نے نہیں اُتاری ہے ۔‘‘
فائدہ:
علامہ شبیر احمد عثمانی حنفی دیوبندی نے اس آیت کریمہ کے حاشیے پر لکھا ہے کہ قوم ہود کے مشرک بھی اپنے بتوں کو کہتے تھے کہ فلاں مینہ برسانے والا ہے، اور فلاں رزق دینے والا ہے، اور فلاں بیٹا عطا کرنے والا ہے۔ وعلی ھذا القیاس۔ حاجات میں غیر اللہ کو وسیلہ قرب الہی جان کر غائبانہ پکارتے تھے۔
مولا نا عبدالرحمن کیلانیؒ ’’تیسیر القرآن ۶۷٫۲ ۶۸ ‘‘ پر رقم طراز ہیں کہ ”ہمارے ہاں بھی ایسے نام بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مثلاً فلاں بزرگ غوث (فریاد رس) ہے، فلاں ولی داتا ہے، فلاں گنج بخش ہے، فلاں مشکل کشا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس دور کے مشرک ایسی صفات کو دیوتاؤں، دیویوں، فرشتوں یا بعض ارواح کی طرف منسوب کرتے تھے اور ہمارے زمانہ میں یہ صفات بزرگوں کی طرف منسوب کر دی جاتی ہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ایسی باتوں کے لئے شریعت الہی میں کوئی سند نہیں ہے کہ میرا فلاں ولی یا بزرگ مشکل کشا ہو سکتا ہے، اور میں نے اسے ایسے اختیارات دے رکھے ہیں۔“
چنانچہ جب قوم ہودؑ کو ہلاک کر دیا گیا، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ان کا کوئی حیلہ کارگر نہ ہوا۔ اور نہ ہی کوئی وسیلہ ان کے کام آیا۔
(فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَؕ)
(هود: ۱۰۱)
’’پس جب آپ کے رب کا حکم ( عذاب ) آ گیا تو وہ معبود جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے، کچھ بھی کام نہ آئے ۔“
دوسرے مقام پر آتا ہے:
(فَلَوْ لَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةًؕ-بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْۚ-وَ ذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَ مَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(28))
(احقاف : ۲۸)
’’ پس کیوں نہ مدد کی اُن کی سب نے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے معبود بنا رکھا تھا، بلکہ وہ سب اُن سے غائب ہو گئے ، اور یہ (معبود سازی) اُن کا جھوٹ اور (اللہ کے خلاف ) اُن کی افتراء پردازی تھی۔“
قوم ابراہیمؑ :
اس قوم نے بزرگوں کے مجسمے بنا کر ان کی پرستش شروع کر رکھی تھی ۔ تمثال و انصاب کا عام رواج اسی قوم سے شروع ہوا ۔ بعض اُن میں سے ایسے تھے جو اجرام فلکیہ کی پوجا کرتے تھے۔ وہ اصنام اور مورتیاں جن بزرگوں کی طرف منسوب تھیں، ان کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ غائبانہ سمیع و بصیر، مالک و مختار اور نافع وضار ہیں ۔ اس لئے حاجات میں ان کو پکارتے تھے۔ ابراہیمؑ جب مبعوث ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے باپ کو مخاطب کیا:
(یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا(42))
(مريم : ٤٢)
”اے ابا! آپ ایسے کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتا ہے۔“
اسی تقریر میں بزرگوں کی عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا، کیونکہ بزرگوں کی عبادت شیطان کے بہکانے سے ہی ہوسکتی ہے۔
((یٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(44)))
(مريم : ٤٤)
” اے ابا! آپ شیطان کی عبادت نہ کیجئے ، بے شک شیطان رحمن کا بڑا نا فرمان رہا ہے۔‘‘
پھر قوم کو مخاطب فرمایا:
(اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ(52))
(الأنبياء: ٥٢)
” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ مورتیاں کیا ہیں جن کی تم مجاوری کر رہے ہو۔“
دوسری جگہ پر آتا ہے:
(وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ ﳲ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا(48))
(مريم : ٤٨)
’’اور لوگو! میں تم سے جدا ہوتا ہوں اور ان معبودوں سے بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،اور میں اپنے رب کو پکاروں گا،مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر (اس کی رحمت سے) محروم نہیں رہوں گا ۔“
قوم یوسفؑ :
اس قوم نے بھی ارباب متفرقہ تجویز کر رکھے تھے۔ قوم ہود کی طرح ان کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ سیدنا یوسفؑ نے مندرجہ ذیل الفاظ سے اس عقیدہ کی تردید فرمائی:
( يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ)
(يوسف : ٤٠،٣٩)
” اے زنداں کے ساتھیو! کیا کئی مختلف معبود اچھے ہیں یا اللہ جو ایک اور زبردست ہے، اللہ کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو، وہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، ہر حکم اور فیصلے کا مالک صرف اللہ ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔“
قوم موسىؑ :
یہ قوم ایک زندہ حکمران کی پوجا کرتی تھی ، جس کا لقب فرعون تھا۔ جس کا دعوی تھا:
(( أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى ))
(النازعات : ٢٤)
’’میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔‘‘
اس کے علاوہ اور الٰہ بھی پائے جاتے تھے۔ جن کی خود فرعون بھی پرستش کرتا تھا۔ جیسا کہ سورۃ اعراف سے ثابت ہوتا ہے، سب سے بڑا شرک اُن میں یہ تھا کہ وہ ان الہٰوں کو حاجات میں غائبانہ پکارتے تھے۔ جیسا کہ مومن آل فرعون کی تقریر سے واضح ہوتا تفصیل اس قصہ کی سورۃ ’’المؤمن‘‘ میں مذکور ہے۔
قوم الیاسؑ:
الیاسؑ کا نام ’’الیاسین‘‘ بھی ہے، اور بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ’’ایلیا‘‘ آیا ہے۔ ان کا زمانہ سلیمانؑ کے بعد کا تھا۔ انہیں اللہ نے شہر بعلبک اور اس کے گردو نواح میں رہنے والے بنی اسرائیل کے لئے اس وقت نبی بنا کر بھیجا تھا، جب ان میں بت پرستی پھیل گئی تھی، لوگ اللہ کے بجائے بعد نامی بت کے پجاری بن گئے تھے۔ غائبانہ حاجات میں اس کو پکارتے تھے اور ہر قسم کی نذر و نیاز اور قربانی اُسی کے نام سے کرتے تھے، اور تو رات کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تھا، الیاسؑ نے اُن سے کہا کہ:
(اَلَا تَتَّقُوْنَ(124)اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ(125)اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَ رَبَّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(126))
(الصفت : ١٢٤ – ١٢٦)
’’کیا تم لوگ اللہ کے عذاب سے ڈرتے نہیں کہ اس کے بجائے بتوں کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم اس قدرگم گشتہ راہ ہو گئے ہو کہ اپنے بڑے بت (بعل) کی رستش کرتے ہو، اور اللہ احسن الخالقین کو فراموش کر بیٹھے ہو جو تمہارا اور تمہارے گزشتہ آباء واجداد کا رب ہے؟‘‘
قوم اصحاب کہف:
اس قوم نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کئی الٰہ مانے ہوئے تھے۔ حاجات روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کو غائبانہ پکارتے تھے۔ اور اس باطل عقیدہ پر ان کے پاس سوائے اتباع ہوئی اور تقلید آباء کے اور کوئی سند نہ تھی۔
اس ماحول میں چند نو جوانوں نے نعرہ تو حید کو بلند کیا۔ اور برسر عام اس زعم باطل کی تردید کی ۔ سورۃ کہف میں ہے:
(اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًى(13)وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا(14)هٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-لَوْ لَا یَاْتُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍؕ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاﭤ(15))
(الكهف : ١٣ – ١٥)
’’یقیناً وہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے ، اور ہم نے انہیں راہِ راست کی طرف زیادہ ہدایت دی تھی ، اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط رکھا، جب وہ ( دعوت حق کے لئے ) کھڑے ہوئے ، اور کہا کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم اس کے علاوہ کسی دوسرے معبود کی ہرگز عبادت نہیں کریں گے۔ ورنہ ہم بالکل بے جا بات کریں گے (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) ہماری اس قوم نے تو اللہ کے سوا دوسرے معبود بنالئے ہیں، یہ لوگ ان کے معبود ہونے کی کوئی صریح دلیل کیوں نہیں پیش کرتے ؟“
یہود و نصاریٰ کا شرک :
یہود نے سید نا عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ، جن کا زمانہ عیسیٰؑ سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل کا ہے، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بکھری ہوئی تو رات کو اکٹھا کیا، اور عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تمام اسرائیلی کتابوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کے لئے قانون کی ایک عظیم کتاب تیار کی ، جس سے متاثر ہو کر یہودیوں نے انہیں اللہ کا مجازی بیٹا کہنا شروع کر دیا، جو توحید باری تعالیٰ کی شان کے خلاف تھا اور گمراہ نصاریٰ میں سے کسی نے عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا مانا۔
(وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ)
(التوبة : ٣٠)
” اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔“
نصاری میں سے بعض تثلیث کے قائل تھے۔ اللہ تعالیٰ کو تیسرے درجہ پر سمجھتے تھے۔ ذیل کی آیت کریمہ میں ان کی تکفیر کی گئی ہے :
((لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُـوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ))
(المائده : ۷۳)
’’ بے شک ان لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا، جنہوں نے کہا کہ اللہ تین معبودوں میں سے ایک ہے۔“
فائدہ :
’’ تثلیث یعنی اقانیم ثلاثہ کا عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تین کے مجموعے میں سے ایک ہے، یعنی باپ بیٹا اور روح القدس، یا باپ بیٹا اور ماں، تینوں مل کر ایک معبود ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو کافر ٹھہرایا۔
عیسائیوں کا ایک شرک یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کے بجائے اپنا معبود اس طرح بنالیا کہ جب ان کے دنیا دار عالموں نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنایا تو انہوں نے ان کی پیروی کی، چنانچہ سید نا عدی بن حاتمؓ سے مروی ہے کہ؛
’’وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ان کی گردن میں صلیب لٹک رہی تھی (انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائیت قبول کر لی تھی ) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
(اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)
(التوبة : ۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے عالموں اور اپنے عابدوں کو اللہ کے بجائے معبود بنالیا۔“
( سید نا عدیؓ فرماتے ہیں ) تو میں نے کہا:
عیسائیوں نے اپنے عالموں کی عبادت تو نہیں کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
”ہاں ! انہوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا، تو لوگوں نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی کی، یہی ان کی عبادت ہے۔‘‘
سنن ترمذى، كتاب التفسير، رقم: ۳۰۹۵، طبرانی کبیر ۲۱۹،۲۱۸/۱۷ ، تفسير ابن أبي حاتم ١٧٨٤/٦ تفسير ابن كثير ٣٧٥/٣، سنن الكبرى بيهقى ١١٦/١٠، صحيح الترمذى للألباني، رقم: ٢٤٧١.
مشرکین مکہ اور کفار قریش کے عقائد و اعمال حسنہ:
مندرجہ بالا سطور میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل شرک کی کیفیات کا تذکرہ گزرا ہے۔ ابھی ہم مشرکین مکہ کے شرک کی کیفیت کا خاکہ پیش کریں گے، تا کہ جس معاشرہ میں آپ ﷺ پیدا ہوئے اور پھر مبعوث ہوئے ، اس معاشرہ اور اس دور کے شرک کی حالت و کیفیت معلوم ہو سکے اور تب ہی شرک کی مکمل صورت گری ممکن ہوگی ۔
عامة المسلمین یہ سمجھتے ہیں یا انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار اور ذاتِ پاک باری تعالیٰ کا اعتراف ہی تو حید ہے۔ (ان کا زعم باطل ہے کہ) ہم تو اللہ کو مانتے ہیں، لہٰذا ہم سچے مسلمان اور پکے موحد ہیں ، اور کفار قریش اللہ رب العزت کی ہستی کے منکر تھے اور وجودِ باری تعالیٰ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ اس لیے وہ مشرک قرار پائے۔
یہ ایک مغالطہ اور فریب خوردگی ہے۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ قریش مکہ نہ صرف ذات باری تعالیٰ کے قائل تھے ، صفات الہی پر بھی ایمان رکھتے تھے، بلکہ اللہ کی پرستش بھی کرتے تھے، اس سلسلہ میں قرآن کریم، اور احادیث رسول ﷺ کی تصریحات اور سیرت و تاریخ کی مستند و صحیح روایات ملاحظہ ہوں :
مشرکین مکہ کے عقائد ونظریات :
کتاب اللہ سے اللہ کی ذات وصفات سے متعلق مشرکین مکہ کے درج ذیل عقائد و تصورات معلوم ہوتے ہیں :
انسانوں کا خالق صرف اللہ ہے:
اللہ تعالی ، رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہیں:
(وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ)
(الزخرف : ۸۷)
’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ کہیں گے، اللہ نے ‘‘
خالق ارض و سماء صرف اللہ ہے:
اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ ﷺ سے ارشاد فرماتے ہیں:
(وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ)
(لقمٰن : ٢٥)
’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے، اللہ نے ۔ “
رازق، مالک، مدبر الامور اللہ ہے اور موت وحیات بھی اسی کے ہاتھ میں ہے:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُۚ)
(يونس: ۳۱)
’’آپ پوچھئے کہ تمہیں آسمان اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے، یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے، اور کون زندہ سے مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، وہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ “
زمین و آسمان، عرش عظیم اور ہر چیز کا مالک اور رب صرف اللہ ہے:
(قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(84)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(85) قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(86)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(87))
(المومنون : ٨٤-٨٧)
”اے میرے پیغمبر! آپ ان سے پوچھئے اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور اس میں رہنے والوں کا مالک کون ہے؟ وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کا مالک اللہ ہے، آپ کیسے تو پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے ہو، اے میرے پیغمبر ! آپ ان سے پوچھیئے کہ ساتوں آسمانوں کا رب کون ہے، اور عرش عظیم کا رب کون ہے، وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ، آپ کہئے تو پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔“
ہر چیز کا بادشاہ اور صاحب اختیار واقتدار اعلیٰ اللہ ہے:
(قُلْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(88)سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِؕ-قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ(89))
(المومنون : ۸۹۰۸۸)
”اے میرے پیغمبر ! آپ ان سے پوچھئے کہ اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے، اور جو سب کو پناہ دیتا ہے، اور اس کی مرضی کے خلاف کسی کو پناہ نہیں دی جاسکتی ہے، وہ یہی جواب دیں گے کہ ہر چیز کا بادشاہ صرف اللہ ہے، آپ کہئے تو پھر تم جادو کئے ہوئے کی طرح کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو۔“
قادر مطلق اللہ ہے:
مشرکین کہتے تھے کہ اگر ہم اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ جانوروں کو حرام کہتے ہیں، اور ہمارے آباء و اجداد بھی ایسا کرتے رہے ہیں تو اس میں ہمارا اور ان کا کوئی قصور نہیں ہے، یہ تو اللہ کی مشیت کے مطابق ہے، اگر اس کی مرضی نہ ہوتی جیسا کہ محمد(ﷺ) کا گمان ہے تو ہم ایسا نہ کرتے :
((سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍؕ))
(الانعام : ١٤٩)
’’ جن لوگوں نے شرک کیا وہ عنقریب کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے۔‘‘
متصرف علی الاطلاق اللہ ہے:
(وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُۚ)
(العنكبوت : ٦١)
’’اور اگر آپ اُن سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے، اور آفتاب و ماہتاب کو کس نے اپنے حکم کا تابع بنا رکھا ہے، تو وہ کہیں گے؛ اللہ نے “
بارش برسانے والا اور زمین سے نباتات اُگانے والا اللہ ہے:
(وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ)
(العنكبوت : ٦٣)
’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان سے پانی کس نے اُتارا ہے، جس کے ذریعہ وہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے، تو وہ کہیں گے اللہ نے ۔“
العزیز (زبر دست) اور العلیم ( بڑا جاننے والا ) اللہ ہی ہے:
(وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(9))
(الزخرف : ٩)
اور اگر آپ اُن سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ یہی کہیں گے کہ انہیں اس اللہ نے پیدا کیا ہے جو زبردست ، بڑا جاننے والا ہے۔“
بڑی مصیبتوں میں فقط اللہ ہی کام آ سکتا ہے:
(فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ )
(العنكبوت : ٦٥)
’’پس جب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں، تو اللہ کے لئے بندگی کو خالص کر کے اُسے پکارتے ہیں۔“
مفسر شہیر علامہ سید محمود آلوسی حنفی المتوفی سنہ ۱۲۷۰ ھ اپنی معرکۃ الآراء ” تفسیر روح المعانی‘‘ (۹۸/۱۱) ’’ تفسیر آیت (جَاءَ تُهَا رِيحٌ عَاصِفٌ) کے تحت سید نا عکرمہؓ سے متعلق روایت لائے ہیں کہ ”جب عکرمہؓ کشتی میں سوار ہوئے اور انہیں طوفانِ باد نے آلیا۔‘‘ میں رقم طراز ہیں:
((تَجْعَلُوا يَدْعُونَ اللَّهَ تَعَالَى وَيُوَحِدُونَهُ قَالَ: مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا مَكَانُ لَا يَنْفَعُ فِيهِ إِلَّا اللهُ تَعَالَى، قَالَ: فَهَدَ إِلهُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَدْعُونَا إِلَيْهِ فَارْجِعُوا بِنَا، فَرَجَعَ وَأَسْلَمَ.))
’’تو اہل کشتی صرف الہ واحد کو پکارنے لگے، ( عکرمہؓ نے ) کہا ، یہ کیا ہے؟ پس انہوں نے کہا:
اس موقع پر سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نفع نہیں دے سکتا۔ (اس پر) عکرمہؓ نے کہا کہ محمد ﷺ بھی تو ہم کو اسی طرف بلاتے تھے، ہمیں واپس لے چلو ۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ آئے اور مسلمان ہو گئے ۔“
اس کے بعد موصوف نہایت دل سوزی کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:
(( وأيامًا كان فالآية دالة على أن المشركين لا يدعون غيره تعالى في تلك الحال، وأنت خبير بأن الناس اليوم إذا اعتراهم أمر خطير وخطب جسيم فى بر أو بحر دعوا من لا يضر ولا ينفع ولا يرى ولا يسمع ، فمنهم من يدعوا الخضر وإلياس، ومنهم من ينادى أبا الخميس والعباس ، ومنهم من يستغيث بأحد الأئمة ومنهم من يضرع إلى شيخ المشائخ الأمة ولا ترى فيهم أحدا يخص مولاه بتضرعه ودعاه ، ولا يكاد يمرّ له ببال إنه لودعا الله تعالى وحده ينجوا من هاتيك الأهوال، فبا الله تعالى عليك قل لي أي الفريقين من هذه الحيثية أهدى سبيلا ، وأي الداعيين أقوم قيلا؟ وإلى الله تعالى المشتكى من زمان عصفت فيه ريح الجهالة ، وتلاطمت أمواج الضلالة، وخرقت سفينة الشريعة، واتخذت الإستغاثة بغير الله تعالى للنجاة ذريعة وتعذر على العارفين الأمر بالمعروف وصالت دون النهي عن المنكر صنوف الحتوف .))
” وہ بھی دن تھے، چنانچہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مشرکین ( مکہ ) مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارتے تھے ، اور اس حقیقت سے تو باخبر ہے کہ آج لوگوں کو زمین پر یا سمندر میں جب کوئی بہت بڑا مہلک واقعہ اور سخت خطر ناک حالت پیش آ جاتی ہے تو وہ ان کو پکارنے لگتے ہیں جو نہ نفع و نقصان پر قادر ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں، بعض تو خضر اور الیاس کو پکارتے ہیں اور بعض ابو الخمیس اور عباس کو ندا دیتے ہیں۔ اور بعض کسی امام سے مدد طلب کرتے ہیں، اور بعض امت کے کسی بزرگ سے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں اور ان میں سے آپ کسی کو خاص اپنے اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر دعا کرتے نہ دیکھیں گے اور ان کے دل میں یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ اگر اس نے صرف اللہ تعالیٰ کو پکارا تو وہ ان خوفناک مصائب سے نجات پاجائے گا۔ پس تجھے اللہ کی قسم! مجھے بتلائیے کہ ان دونوں (مشرکین مکہ مسلمین عہد حاضر) میں سے کون راہِ ہدایت پر ہے، اور ان پکارنے والوں میں سے کون سیدھی صحیح بات کرتا ہے؟ اور عہد حاضر کی شکایت تو اللہ ہی کی بارگاہ میں ہے، جس میں جہالت کی آندھی چل رہی ہے، اور گمراہی کی موجوں میں طوفان و تلاطم ہے ، شریعت کی کشتی میں شگاف پڑ گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مدد کے لئے پکارنا نجات کا ذریعہ بنالیا گیا ہے، اور اہل علم و عرفان کے لئے امر بالمعروف انتہائی مشکل ہو گیا ہے اور نہی عن المنکر کی راہ میں انواع واقسام کی ہلاکتیں حائل ہوگئی ہیں۔“
عذاب ٹالنے والا اللہ ہے:
(رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ(12) اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ(13)ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌﭥ(14) اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىٕدُوْنَﭥ(15))
(الدخان : ١٢ – ١٥)
’’ ( اہل کفر کہیں گے ) اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ، اس عذاب کو ہم سے ٹال دے، انہیں کہاں سے نصیحت حاصل ہوگی ، اور اُن کا حال یہ ہے کہ اُن کے پاس ایک کھول کر بیان کرنے والا رسول آیا، تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا ، اور کہا کہ یہ تو ایک سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے، ہم چند دنوں کے لئے عذاب ٹال دیں گے تم پھر اپنی حالت پر لوٹ آؤ گے۔“
ان آیات کریمہ کی تفسیر میں مختلف سندوں کے ساتھ عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ” جب اہل قریش حضور اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ اے اللہ ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعے کر جیسا کہ یوسفؑ کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے ۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے، لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ:
(رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ(12))
(الدخان : ۱۲)
” اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو ٹال دے ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔“
لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ
”اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔‘‘
پھر آنحضرت ﷺ نے بھی ان کے حق میں دعا فرمائی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا، لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے۔
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم : ٤٨٢٢ .
ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل عرب نے اگر چہ دین ابراہیمی کو بدل کر نیا مشرکانہ مذہب اختیار کر لیا تھا (جیسا کہ تفصیل آگے آئے گی ) لیکن خالق کائنات کی ہستی کے وہ نہ صرف یہ کہ قائل تھے ، بلکہ اس کے نام یعنی اللہ سے بھی واقف تھے۔ اہل ایمان کے لئے تو قرآنِ کریم کی تصریحات سے زیادہ قوی اور قطعی دلیل ممکن ہی نہیں ہے، لیکن آثار قدیمہ کے جدید ترین انکشافات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عرب اللہ کے نام سے باخبر تھے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ” مذاہب و اخلاق کے انسائیکلو پیڈیا‘‘ سے پروفیسر ’’ نولد یکی “ کی تحقیق یوں نقل فرمائی ہے:
” ( الله ) جو صفا کے کتبوں میں ” هَلَّہ ‘‘لکھا ہوا ہے نا بتی اور دیگر قدیم باشندگانِ عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا مثلاً :
زید اللہی، عبد اللہ اللہی نا بتی کتبات میں اللہ کا نام بطور ایک علیحدہ معبود کے نہیں ملتا، لیکن صفا کے کتبات میں ملتا ہے۔ متاخرین مشرکین میں اللہ کا نام نہایت عام ہے ” ولہاسن ‘‘ نے عرب قدیم کے لٹریچر میں بہت سی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں اللہ کا لفظ بطور ایک معبود اعظم کے مستعمل ہوا ہے۔“
سيرة النبى ١ / ١٢٢ ، طبع سعید کراچی، طبع چهارم.
خلاصہ:
کفار عرب، مشرکین مکہ کے عقائد و نظریات کا خلاصہ ملاحظہ ہو۔ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ:
➊ تمام انسانوں کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔
➋ خالق ارض و سماء اللہ ہے۔
➌ رزاق، مالک اور مدبر الامور اللہ ہے۔
➍ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
➎ زمین و آسمان ، عرش عظیم اور ہر ایک چیز کا مالک اور رب اللہ ہے۔
➏ ہر چیز کا بادشاہ اور صاحب اختیار و اقتدار اعلیٰ اللہ ہے۔
➐ قادر مطلق اللہ ہے۔
➑ متصرف علی الاطلاق اللہ ہے۔
➒ بارش برسانے والا اور زمین سے نباتات اُگانے والا اللہ ہے۔
➓ ’’العزیز‘‘ اور ’’العلیم‘‘ اللہ ہے۔
⓫ بڑی مصیبتوں میں فقط اللہ ہی کام آ سکتا ہے۔
⓬ عذاب ٹالنے والا اللہ ہے۔
کفار قریش ، مشرکین مکہ کے اعمال حسنہ:
مشرکین مکہ کے عقائد و نظریات کا بیان ابھی گزرا ہے، اب کفار مکہ کے چند اعمال حسنہ کا حال ملاحظہ ہو :
اللہ کا گھر ” بیت اللہ ‘‘انہوں نے تعمیر کیا تھا:
یادر ہے کہ مشرکین مکہ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اس درجہ پاس تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت کہنے لگے:
((لَا تُدْخِلُوا فِى بَنَائِهَا مِنْ كَسَبِكُمْ إِلَّا طَيِّبًا لَمْ تَقْطَعُوا فِيهِ رِحُمًا وَلَمْ تَظْلِمُوا فِيهِ أَحَدًا . ))
طبقات ابن سعد ١٤٥/١ .
”لوگو! بیت اللہ کی تعمیر میں صرف پاک کمائی خرچ کرو قطع رحم کر کے یا کسی پر ظلم کر کے جو روپیہ کمایا ہو وہ یہاں نہ لگاؤ۔“
نماز پڑھتے تھے:
شاہ ولی اللہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ (۱۲۷/۱ ، طبع فاران اکیڈمی) میں لکھتے ہیں :
((وَكَانَتْ فِيهِمُ الصَّلَاةُ، وَكَانَ ’’ أَبُو ذَرٍ ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُصَلَّى قَبْلَ أَن يَقْدُمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ، وَكَانَ قِسُ بنُ سَاعِدَةَ الْأَيَادِي “ يُصَلِّى.))
” اور ان میں نماز بھی مروج تھی۔ سیدنا ابو ذرؓ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھتے تھے، اسی طرح قس بن ساعدہ آبادی بھی نماز پڑھتے تھے۔“
صحیح مسلم (كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل آبی ذرؓ) میں بھی ہے کہ عبد جاہلیت میں سید نا ابو ذر عشاء کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
حج کرتے تھے، عمرہ بجالاتے تھے اور طواف کعبہ کرتے تھے:
امام ابن اسحاقؒ کا قول ہے:
” بنی اسماعیل ( قریش) نے سیدنا ابراہیم و اسماعیل کا دین بدل کر بتوں کی پرستش شروع کر دی، اور گمراہ امم سابقہ کے نقش قدم پر چلنے لگے، اس کے باوجود ان میں عہد ابراہیم کی کچھ عبادات باقی رہ گئی تھیں، مثلاً بیت اللہ کی تعظیم ، اور اس کا طواف، حج و عمرہ اور عرفہ و مزدلفہ میں ٹھہرنا ۔ “
سيرة ابن هشام : ۸۰/۱
صحیح مسلم (كتاب الحج، باب لا يحج البيت مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان. رقم : ١٣٤٧) میں ہے کہ مکہ فتح ہوا تو مشرکین مکہ کو حج اور طواف کعبہ سے روک دیا گیا۔
اس کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ مشرکین مکہ حج بیت اللہ اور طواف کعبہ کیا کرتے تھے۔ وگرنہ روکنے کا حکم چہ معنی دارد؟
عاشورا کا روزہ بھی رکھتے تھے:
چنانچہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
(( إِنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ .))
صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب وجوب صوم رمضان، رقم: ۱۸۹۳
’’یقیناً قریش دور جاہلیت میں یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ۔“
زکوٰۃ دیتے تھے:
فرمانِ باری تعالی ہے:
((وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ ))
(الأنعام: ١٣٦)
” اور اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کئے ہیں ان کا ایک حصہ مشرکوں نے اللہ کے لئے مقرر کر دیا، اور اپنے زعم باطل کے مطابق کہا کہ یہ اللہ کے لئے ہے، اور یہ ہمارے معبودوں کے لئے ۔“
غلام آزاد کرتے تھے:
عاص بن وائل نے موت کے وقت اپنے لڑکے (سیدنا) ہشامؓ کو وصیت کی کہ میرے بعد میری طرف سے اتنے غلام آزاد کرنا ، چنانچہ انہوں نے پچاس (۵۰) غلام آزاد کیے۔
سنن ابو داؤد بحواله حجة الله البالغه ۱ / ۱۲۷، طبع فاران اکیڈمی.
اس طرح سید نا حکیم بن حزام کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ جاہلیت میں سو (۱۰۰) غلام آزاد کئے ۔
مسند أبي عوانة ۷۳/۱، رقم: ۲۱۰، ۲۱۱ ، صحيح مسلم كتاب الإيمان، رقم: ۱۲۳ / عقب ١٩٥ من طريق أبي معاويه.
قربانیاں دیتے تھے:
سید نا حکیم بن حزام کے متعلق آتا ہے:
(( سَاقَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ بَدَنَةٍ.))
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: ۱۲۳ ، مسند أبي عوانة، رقم: ۲۱۱.
’’کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں سو (۱۰۰) اونٹ قربان کئے تھے۔“
اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانتے تھے:
سید نا عمرؓ سے مروی ہے، انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ !
(( إِنِّي نَذَرُتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ اَنْ اَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ اَوْفِ بِنَدْرِكَ فَاعْتَكَفَ لَيْلَةٌ . ))
صحيح مسلم، کتاب الأيمان، رقم : ٤٢٩٢ ، صحيح بخارى، كتاب الإعتكاف، باب الإعتكاف ليلا، رقم : ٢٠٣٢.
’’ میں نے عہد جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام ( بیت اللہ ) میں اعتکاف کروں گا۔ (رسول اللہ ﷺ نے ان سے ) فرمایا؛ اپنی نذر پوری کرو، چنانچہ انہوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔“
غسل جنابت بھی کیا کرتے ،سنن ابراہیم ( تمام خصائل فطرت ) کے قائل اور فاعل تھے :
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں:
((وَمَا زَالَ الْغُسُلُ مِنَ الْجَنَابَةِ سُنَّةٌ مَعُمُولَةً عِنْدَهُمُ وَكَذَلِكَ الْخِتَانُ وَسَائِرُ خَصَائِلِ الْفِطْرَةِ. ))
حجة الله البالغة، باب بيان ما كان عليه حال اهل جاهلية ۱۲۷/۱، طبع فاران اکیڈمی.
’’اور جنابت سے غسل کرنا ہمیشہ ابواب عبادت میں سے رہا ہے۔ اسی طرح ختنہ کرانا اور تمام خصائل فطرت بھی ابواب عبادت رہی ہیں ۔“
نکاح کرتے تھے:
قبل از اسلام، عہد جاہلیت میں صحیح نکاح کا بھی رواج تھا۔ چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جاہلیت میں چار قسم کا نکاح ہوتا تھا:
(( فَنِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ .))
صحیح بخاری، کتاب النکاح باب من قال لا نكاح إلا بولي.
’’ان میں سے ایک نکاح اس زمانہ کے مسلمانوں کا نکاح تھا۔“
بچوں کا نام بھی عبداللہ رکھتے تھے:
مشرکین مکہ میں ’’عبداللہ‘‘ نام رکھنے کا عام رواج تھا۔ چنانچہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے والد کا نام عبداللہ تھا۔
صحيح السيرة النبوية للألباني، ص: ۹ – ۱۱ .
اور سید نا ابو بکرؓ کا نام عہد جاہلیت میں ’’عبداللہ‘‘ رکھا گیا تھا۔
مستدرك حاكم، رقم : ٤٤٥٩ ، معجم كبير للطبراني ٥١/١.
خلاصہ:
کفارِ مکہ کے چند اچھے اعمال و کردار کا ذکر ہوا ہے، اب خلاصہ ملاحظہ فرمائے گا:
➊ اللہ کا گھر ’’ بیت اللہ ‘‘ انہوں نے تعمیر کیا تھا۔
➋ نماز پڑھتے تھے۔
➌ حج کرتے تھے ، عمرہ بجالاتے تھے اور طواف کعبہ بھی کرتے تھے۔
➍ عاشوراء کا روزہ بھی رکھتے تھے۔
➎ زکوۃ دیتے تھے۔
➏ غلام آزاد کرتے تھے۔
➐ قربانیاں دیتے تھے۔
➑ اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانتے تھے۔
➒ غسل جنابت بھی کیا کرتے تھے اور سنن ابراہیم ( تمام خصائل فطرت ) کے قائل بھی تھے اور فاعل بھی۔
➓ نکاح کرتے تھے۔
⓫ بچوں کا نام بھی عبداللہ رکھتے تھے ، وغیرہ۔
لمحہ فکریہ ! لیکن بایں ہمہ قرآنِ پاک ان کو کافر اور مشرک کہتا ہے۔ ان کی سزا جہنم بتا تا ہے یہ کیوں؟
مشرکین مکہ کو مشرک کیوں کہا گیا ؟:
چنانچہ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری ’’ الرحیق المختوم “ (ص ۷۷۷۱) میں اہل جاہلیت کے اندر رائج بت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ’’عرب ادیان و مذاہب‘‘ کی بحث میں رقم طراز ہیں:
دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے ، انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے ، اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔
بتوں کا حج و طواف کرتے تھے، ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آتے تھے، اور انہیں سجدہ کرتے تھے ۔ بتوں کے لئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے ، اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لے جاکر ذبح کرتے تھے ، اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے، مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کیا ہے۔ ارشاد ہے:
( وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ )
(المائده : ۳)
’’یعنی وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کئے گئے ہوں۔“
دوسری جگہ ارشاد ہے:
(وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ)
(الانعام : ۱۲۲)
’’اُس جانور کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔“
بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صواب دید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چوپائے کی پیداوار کا ایک حصہ بتوں کے لئے خاص کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لئے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایک حصہ خاص کرتے تھے۔ پھر مختلف اسباب کی بناء پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے، لیکن بتوں کا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ-فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىٕهِمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(136))
(الأنعام: ۱۳۷)
’’اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کئے ہیں، اس کا ایک حصہ انہوں نے اللہ کے لئے مقرر کیا اور کہا یہ اللہ کے لئے ہے۔ ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شرکاء کے لئے ہے، تو جو اُن کے شرکاء کے لئے ہوتا ہے وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لئے ہوتا ہے وہ ان کے شر کا ء تک پہنچ جاتا ہے۔ کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔“
بتوں کے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے اندر مختلف قسم کی نذریں مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَ قَالُوْا هٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِؕ)
(الانعام : ۱۳۹)
’’ان مشرکین نے کہا کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں۔ انہیں وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں . ان کے خیال میں … اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ . حرام کی گئی ہے( نہ ان پر سواری کی جاسکتی ہے نہ سامان لا دا جا سکتا ہے ) اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن پر یہ لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتے ۔“
ان ہی جانوروں میں بَحِيرَه، سَائِبَه، وَصِیلَہ اور حامی تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بَحِيرَة، سَائِبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے۔ اور سَائِبہ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جسے دس بارہ پے در پے مادہ بچے پیدا ہوں، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوا ہو۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا، اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اوٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا۔ اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری نہ کی جاتی ۔اس کا بال نہ کاٹا جاتا۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا ۔ یہی بحیرہ ہے۔ اور اس کی ماں سائبہ ہے۔
وَصِيلہ:
اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے در پے دو دو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس مادہ بچے پیدا ہوتے ) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لئے ”وصیلہ‘‘ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی ۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے، عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں ۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے۔
حَامِيُّ:
اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جفتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے ، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی ، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جُفتی کے لئے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرے فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت کی بت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
( مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآىٕبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍۙ-وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(103) )
(المائده : ۱۰۳)
’’اللہ نے نہ کوئی بحیرہ، نہ کوئی سائبہ، نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔‘‘
ایک دوسری جگہ فرمایا:
((وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَاۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُؕ))
(الأنعام : ١٤٠)
” ان (مشرکین ) نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ البتہ اگر وہ مردہ ہو تو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں۔“
چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ ، سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ (سیرۃ ابن ہشام ۹۰،۸۹/۱) جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں ۔
حضرت سعید بن مسیبؒ کا بیان ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لئے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب التفسير، رقم: ٦٤٢٣ .
اور صحیح بخاری میں مرفوعاً مروی ہے کہ ’’ عمرو بن لُحَی پہلا شخص ہے، جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑے ۔“
صحيح بخارى، أيضًا.
عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کر دیں گے، اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے :
(مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ)
(الزمر: ٣)
”ہم ان کی عبادت محض اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔“
(وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ )
(یونس : ۱۸)
’’یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچاسکیں نہ نقصان، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔“
مشرکین عرب از لام یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے۔ (از لام، زلم کی جمع ہے۔ اور زلم اُس تیر کو کہتے ہیں جس میں پر نہ لگے ہوں ) فال گیری کے لئے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے۔ ایک وہ جن پر صرف ”ہاں“یا ”نہیں“ لکھا ہوتا تھا۔ اس قسم کے تیر سفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ اگر فال میں ”ہاں“ نکلتا تو مطلوبہ کام کر ڈالا جاتا، اگر نہیں نکلتا تو سال بھر کے لئے ملتوی کر دیا جاتا۔ اور آئندہ پھر فال نکالی جاتی ۔
فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دیت وغیرہ درج ہوتے تھے۔ اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھا کہ ”تم میں سے ہے یا ” تمہارے علاوہ سے ہے“ یا ’’ملحق‘‘ ہے۔ ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہ ہوتا تو اسے ایک سو اُونٹوں سمیت ہبل کے پاس لے جاتے ۔ اونٹوں کو تیر والے مہنت کے حوالے کرتے اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملا کر گھماتا جھنجھوڑتا، پھر ایک تیر نکالتا۔ اب اگر یہ نکلتا کہ ” تم میں سے ہے ۔‘‘ تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا، اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ ” تمہارے غیر سے ہے‘‘ تو حلیف قرار پاتا ، اور اگر یہ نکلتا کہ ’’ملحق‘‘ ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا ، نہ قبیلے کا فرد مانا جاتا نہ حلیف ۔
محاضرات خضری ٥٦١ ، ابن هشام ۱۰۳،۱۰۲/۱.
اسی سے ملتا جلتا ایک رواج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا۔ اسی تیر کی نشان دہی پر وہ جوئے کا اُونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے۔
(اس کا طریقہ یہ تھا کہ جوا کھیلنے والے ایک اونٹ ذبح کر کے اسے دس یا اٹھائیس حصوں پر تقسیم کرتے ۔ پھر تیروں سے قرعہ اندازی کرتے ۔ کسی تیر پر جیت کا نشان بنا ہوتا اور کوئی تیر بے نشان ہوتا ۔ جس کے نام پر جیت کے نشان والا تیر نکلتا وہ تو کامیاب مانا جاتا ، اور جس کے نام پر بے نشان تیر نکلتا اُسے قیمت دینی پڑتی۔)
مشرکین عرب کا ہنوں، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ کا ہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے، اور راز ہائے سربستہ سے واقفیت کا دعوے دار ہو۔ بعض کا ہنوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایک جن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے، اور بعض کا ہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے، جس کے ذریعے وہ غیب کا پتا لگا لیتے ہیں۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اس کے قول و فعل سے یا اس کی حالت سے، کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتا لگا لیتے ہیں۔ اس قسم کے آدمی کو عراف کہا جا تا تھا۔ مثلاً وہ شخص جو چوری کے مال، چوری کی جگہ اور گم شدہ جانور وغیرہ کا پتا ، ٹھکانا بتا تا۔
نجومی اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غور کر کے اور ان کی رفتار و اوقات کا حساب لگا کر پتا لگاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے۔
مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ٢/ ٣،٢ طبع لكهنؤ.
ان نجومیوں کی خبروں کو ماننا در حقیت تاروں پر ایمان لانا ہے، اور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکین عرب نجھروں پر ایمان رکھتے تھے، اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں اور فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے۔
صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان كفر من قال مطرنا بالنوء، ٥٤٥٢/٢ ، طبع دار الكتب العلمية.
مشرکین میں بدشگونی کا بھی رواج تھا۔ اسے عربی میں طیرة کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کسی چڑیا یا ہرن کے پاس جا کر اسے بھگاتے تھے۔ پھر اگر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گذرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اس نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے ۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے بھی منحوس سمجھتے ۔
اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے، اور بعض دنوں ، مہینوں ، جانوروں ، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے ۔ اور رُوح کے اُلو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے ، اس کو سکون نہیں ملتا۔ اور اس کی روح اُلو بن کر بیابانوں میں گردش کرتی رہتی ہے۔ اور ’’پیاس، پیاس“ یا ” مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ‘‘ کی صدا لگاتی رہتی ہے۔ جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے ۔ انتھیٰ
صحیح بخاری ٢/ ٨٥٧،٨٥١، طبع المكتبة السلفيه.
یہ رسومات تب بھی شرک تھیں اور اب بھی شرک ہیں ۔