شرک، قتل ناحق، اور ہمسائے کی بیوی سے زنا
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اي الذنب اعظم؟ قال: ‏‏‏‏ان تجعل لله ندا وهو خلقك ‏‏‏‏ قلت: ثم اي؟ قال: ‏‏‏‏ان تقتل ولدك خشية ان ياكل معك ‏‏‏‏ قلت: ثم اي؟ قال: ‏‏‏‏ان تزاني بحليلة جارك ‏‏‏‏ متفق عليه
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے لئے شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا : یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا : یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم بد کاری کرے۔ “ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 6861] ، [مسلم الايمان 142] وغیرهما دیکھئے [تحفة الاشراف7/42]

فوائد :
➊ سب گناہوں سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایسے لوگوں کو شریک اور برابر ٹھہرائے جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [2-البقرة:22] ”پس تم دیدہ دانستہ اللہ کے لئے شریک نہ بناؤ۔“ یہ اللہ کی غیرت کو چیلنج ہے اور اتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسرے گناہ اگر اللہ چاہے تو بخش دے مگر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا۔
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ [4-النساء:48]
” یقیناًً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ “
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انبیاء بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے تمام اعمال برباد ہو جائیں :
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ [ 39-الزمر:65 ]
”اور یقیناً وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا عمل ضرور ہی ضائع ہو جائے گا اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ “
➋ شرک کے بعد قتل ناحق اور اس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ [25-الفرقان:68]
”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔“
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خطرے سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا اور اللہ کے وعدے پر بھی یقین نہ کرے۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ [ 17-الإسراء:31]
” اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔ “
ایک قتل ناحق دو سرا اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم، تیسرا اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بدظنی۔
➌ زنا کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا [17-الإسراء:32]
”اور زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ “
زنا کی قباحت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے کیونکہ ہمسایہ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے اس کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کرے اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تو یہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
ان تراني باب مفاعله سے ہے اس میں مشارکت ہوتی ہے یعنی ہمسائے کی بیوی بھی اس گناہ میں شریک ہو اس کی رضامندی سے تم یہ گناہ کرو۔ اس میں مزید قباحت اس لئے ہے کہ جب وہ کسی غیر کے ساتھ اپنی رضامندی کے ساتھ برائی کرے گی تو خاوند سے اس کی وفا ختم ہو جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کا گھر اجڑ جائے گا۔
حليلة جارك ہمسائے کی بیوی کو حليلة اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوتی ہے مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہے تمہارے لئے   حلال نہیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1