شرعی وکالت: تعریف، اقسام، حدود اور دلائل
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اپنے مال میں تصرف کا حق رکھنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چیز میں کسی کو اپنا نمائندہ بنا لے جب تک کوئی (شرعی ) مانع نہ ہو
لغوى وضاحت: لفظِ وكالة باب وَكُل يُوَكَّلُ (تفعيل) سے مصدر ہے ۔ اس کا معنی ”وکیل بنانا“ ہے ۔ باب وَكَلَ يَكِلُ (ضرب) سپرد کرنا ، کسی پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے اپنا نائب بنانا۔ باب تَوَكَّلَ يَتَوَكَّلُ (تفعل) ”وکیل بننا ۔“
[المنجد: ص/ 984]
یہ لفظ قرآن میں بھی مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے مثلاً:
حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ [آل عمران: 173]
”اللہ ہمیں کافی ہے اور بہت اچھا کارساز ہے ۔“
لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا ‎ [المزمل: 9]
”اُس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں لٰہذا تم اس کو کارساز بناؤ ۔“
وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ [ابراهيم: 12]
”اور اللہ پر ہی بھروسہ کرنے والے بھروسہ کریں ۔“
إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم [هود: 56]
”بلاشبہ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔“
شرعی تعریف: مطلق یا مقید طور پر کسی شخص کو اپنا قائم مقام بنانا ۔
[نيل الأوطار: 658/3 ، مغني المحتاج: 217/2]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ [الكهف: 19]
”اپنی اس چاندی کے ساتھ کسی کو شہر کی طرف بھیجو ۔“
فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا [النساء: 35]
”تم اس لڑکے اور لڑکی کی طرف سے ایک ایک حکم (فیصل ) بھیجو ۔“
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا [يوسف: 93]
”میری یہ قمیض لے جاؤ ۔“
اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ [يوسف: 55]
”مجھے زمین کے خزانوں کا والی بنا دیجیے ۔“
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا [التوبة: 60]
”صرف صدقات فقراء کے لیے ، مساکین کے لیے اور ان کے عاملین کے لیے ہیں ۔“
➏ حضرت ابن أبی أوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے مال کا صدقہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى
[احمد: 353/4 ، شرح السنة: 314/3 ، بيهقى: 157/4 ، طبراني كبير: 11 ، مشكل الآثار: 162/4 ، ابن ماجة: 1796]
➐ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
واغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها
”اے انیسں ! اس کی بیوی کی طرف صبح جاؤ اور اگر وہ اعتراف (زنا) کر لے تو اسے رجم کر دینا ۔“
[بخارى: 2696 ، كتاب الوكالة: باب الوكالة فى الحدود ، مسلم: 1697 ، ابو داود: 4445 ، نسائي: 240/8 ، ترمذى: 1433 ، ابن ماجة: 2549 ، دارمي: 177/2 ، احمد: 115/4 ، حميدي: 354/2 ، طيالسي: 953 ، بيهقي: 212/8 ، شرح السنة: 274/10]
➑ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اونٹوں پر مقرر فرمایا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ میں اونٹوں کے چمڑے اور جلیں تقسیم کر دوں ۔“
[بخاري: 1707 ، كتاب الحج: باب الجلال للبدن ، مسلم: 1317 ، ابو داود: 1769 ، ابن ماجة: 3099 ، نسائي فى السنن الكبرى: 456/2]
➒ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
و كلني النبى صلى الله عليه وسلم فى حفظ زكاة رمضان وأعطى النبى صلى الله عليه وسلم عقبة ابن عامر غنما يقسمها بين أصحابه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃِ رمضان (یعنی صدقہ فطر ) کی حفاظت میں مجھے وکیل بنایا اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو کچھ بھیڑ بکریاں دیں کہ وہ انہیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دے ۔“
[بخاري: 2311 ، كتاب الوكالة: باب إذا وكل رجلا فترك الوكيل ، مسلم: 1965 ، ترمذي: 1500 ، نسائي: 218/7 ، ابن ماجة: 3138 ، احمد: 149/2 ، دارمي: 78/2 ، ابن حبان: 5898 ، بيهقي: 269/9 ، ابو يعلى: 1758 ، ابن خزيمة: 2916]
➓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے لیے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کو اپنا وکیل بنایا ۔
[مؤطا: 348/1 ، مسند شافعي: 317/1]
⓫ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا:
إذا أتيت وكيلى فخذ منه خمسة عشر وسقا
”جب تمہارے پاس میرا وکیل آئے تو اسے پندرہ وسق دے دینا ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 284 ، كتاب القضاء: باب فى الوكالة ، ابو داود: 3632 ، دارقطني: 154/4 ، بخاري تعليقا: 271/6 ، كتاب فرض الخمس: باب ومن الدليل على أن الخمس لنوائب المسلمين]
⓬ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری: کتاب الوکالۃ میں چھبیسں (26) احادیث نقل فرما کر یہ مسئلہ ثابت کیا ہے جن میں سے چھ (6) معلق ہیں اور بقیہ موصول ہیں۔ تفصیل کا طالب ان کی طرف رجوع کر سکتا ہے ۔
[بخاري: كتاب الوكالة ، نيل الأوطار: 658/3]
⓭ وکالہ کے جواز پر امت کا اجماع ہے کیونکہ مصلحت اور ضرورت اس کی متقاضی ہے ۔
[المغنى: 79/5 ، تكملة فتح القدير: 3/6 ، مغنى المحتاج: 217/2 ، المهذب: 348/1 ، المبسوط: 2/19]
اگر نمائندہ مؤکل کے مقرر کیے ہوئے ریٹ سے زیادہ پر کوئی چیز فروخت کر دے تو زیادتی (یعنی زائد منافع ) بھی مؤکل کے لیے ہو گا
➊ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم أعطاه دينارا يشترى له به شاة فاشتري له به شاتين فباع إحداهما بدينار فجاءه بدينار وشاة فدعا له بالبركة فى بيعه وكان لو اشترى التراب الربح فيه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک دینار دیا تا کہ وہ اس کے عوض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری خرید لائے ۔ اس نے اس دینار کے عوض دو بکریاں خرید لیں پھر ان میں سے ایک بکری کو ایک دینار کے بدلے فروخت کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بکری اور دینار دونوں لے کر حاضر ہوا ۔ (یہ دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی کہ اس کی تجارت میں برکت ہو۔ اور پھر وہ یوں تھا کہ مٹی بھی خریدتا تو اس میں نفع ہوتا ۔“
[بخاري: 3642 ، كتاب المناقب: باب سؤال المشركين أن يريهم النبى صلی اللہ علیہ وسلم لآية ، احمد: 375/4 ، ابو داود: 3384 ، ترمذي: 1258 ، ابن ماجة: 2402 ، دار قطني: 10/3]
➋ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دے کر بھیجا تا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربانی کا جانور خرید لائیں۔ انہوں نے اس دینار کے عوض جانور خرید لیا پھر اسے دو دینار کے بدلے فروخت بھی کر دیا۔ پھر دوبارہ واپس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک دینار کا قربانی کا جانور خریدا اور ایک دینار (اور قربانی کا جانور ) لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (دینار ) کو صدقه كر ديا :
ودعا له أن يبارك له فى تجارته
”اور ان کے لیے دعا فرمائی کہ ان کی تجارت میں برکت ڈالی جائے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 733 ، كتاب البيوع: باب فى المضارب يخالف ، ابو داود: 3386 ، ترمذي: 1280]
اگر وہ اس مؤکل کی ہدایت کے مخالف کام کرے اگرچہ وہ زیادہ نفع مند معاملے کے لیے ہو یا کسی اور کے لیے ہو اور اس کا مؤکل بھی راضی ہو جائے تو معاملہ درست ہو گا
➊ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
إذا وكل رجلا فترك الوكيل شيئا فأجازه المؤكل فهو حائز وإن أقرضه إلى أجل مسمى جاز
”کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے (معاملہ میں ) کوئی چیز (خود اپنی رائے سے ) چھوڑ دی اور بعد میں خبر ہونے پر مؤکل نے اس کی اجازت دے دی تو جائز ہے اور اسی طرح اگر مقررہ مدت تک کے لیے قرض دے دیا تو بھی جائز ہے ۔“
[بخارى: كتاب الوكالة]
➋ حضرت معن بن یزید فرماتے ہیں کہ میرے والد کچھ دینار صدقہ کرنے نکلے تو اسے مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ آئے ۔ میں اس آدمی سے پکڑ لایا تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں نے یہ (دینار ) تمہیں دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا (کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنی اولاد پر صدقہ جائز نہیں) پھر وہ دونوں یہ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لك ما نويت يا يزيد ولك يا معن ما أخذت
”اے یزید ! تیرے لیے وہی ہے جو تو نے نیت کی اور اے معن ! جو تو نے پکڑ لیا ہے وہ تیرے لیے ہے ۔“
[بخاري: 1422 ، كتاب الزكاة: باب إذا تصدق على ابنه وهو لا يشعر ، احمد: 470/3]
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے اپنی اولاد یا والدین (جن پر خرچ کرنا لازم ہو ) پر صدقہ کرنے کا جواز نہیں نکلتا کیونکہ یہ امکان ہے کہ معن مستقل ہو (یعنی اپنے خرچ کا خود ذمہ دار ہو اور الگ رہتا ہو ) اس کے باپ پر اس کا خرچہ لازم نہ ہو اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ صدقہ نفلی صدقہ ہو کیونکہ بالا جماع ثابت ہے کہ فرض صدقہ اولاد کے لیے جائز نہیں ۔
[فتح البارى: 43/4]
➌ اس مسئلے کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو زکاۃِ فطر پر محافظ مقرر فرمایا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر غلہ سے محتاج کو کچھ دے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جھوٹا تھا لیکن سچ کہہ گیا ۔“
[بخاري: 2311 ، كتاب الوكالة: باب إذا وكل رجلا فترك الوكيل ]
➍ نواب صدیق حسن خان نقل فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اس وجہ سے بھی جائز و درست ہے کہ عقد میں محض باہمی رضامندی کا ہی اعتبار ہوتا ہے ۔
[الروضة الندية: 501/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1