جس نے کسی زندہ یا فوت شدہ کی ضمانت دی اس پر لازم ہے کہ مطالبہ پر مال ادا کرے
لغوی وضاحت: ضمانت کا مطلب ”کفالت یا تاوان“ ہے۔ یہ باب ضَمِنَ يَضْمَنُ (سمع) سے مصدر ہے جس کا معنی ضامن اور کفیل ہونا مستعمل ہے۔ لفظ ضَامِن اور ضَمِين کا معنی ہے ”کفیل اور ذمہ دار“ اور لفظ مضمون کا معنی ہے ”جس کی کفالت یا ذمہ داری لی جائے ۔“
[المنجد: ص/ 502 ، لسان العرب: 89/8 – 90]
اصلاحی تعریف: مطالبے میں مطلق طور پر ایک شخص کے ذمہ کو کسی دوسرے کے ذمہ کے ساتھ ملا دینا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 4143/6 ، فتح القدير: 389/5 ، بدائع الصنائع: 2/6 ، الدر المختار: 260/4]
ضمانت کا مفہوم سمجھنے کے لیے قرآن کی درج ذیل آیت کافی ہے:
➊ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف: 72]
”جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا اور اس وعدے کا میں ضامن ہوں ۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ زعيم سے مراد ”کفیل“ ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 4142/6]
ضمانت کے جواز پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے ۔
[سبل السلام: 62/3 ، المبسوط: 160/19 ، مغنى المحتاج: 198/2 ، المغنى: 534/4]
➊ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الزعيم غارم
”ضامن چٹی بھرے گا ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1412 ، ابو داود: 3565 ، كتاب البيوع: باب فى تضمين العور ، ابن ماجة: 2405 ، ترمذي: 1265 ، مسند طيالسي: 1128 ، احمد: 267/5 ، بيهقى: 88/6 ، تلخيص الحبير: 47/3 ، ابن حبان: 277/7 ، نصب الراية: 58/4]
➋ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا انہوں نے کہا کہ اس کی نماز جنازہ ادا کر دیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هل ترك شيئا؟
”کیا اس نے کچھ تر کے میں چھوڑا ہے؟“
انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت کیا:
فهل عليه دين
”کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ “
انہوں نے عرض کیا (ہاں)
تین دینار ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوا على صاحبكم
”اپنے ساتھی کی نماز جنازہ (خود ہی) ادا کر لو ۔“
یہ سن کر حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
صل عليه يا رسول الله وعلى دينه فصلى عليه
”اے اللہ کے رسول ! اس کی نماز جنازہ ادا کر دیجیے اور اس کا قرض میرے ذمہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا کر دی ۔“
[بخارى: 2289 ، كتاب الحوالات: باب إذا أحال دين الميت على رجل جاز ، ترمذي: 1069 ، احمد: 330/3 ، ابو داود: 3343 ، نسائي: 1962 ، ابن حبان: 1162 – الموارد ، دار قطني: 79/3 ، حاكم: 58/2 ، إرواء الغليل: 1416]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ڈر سے (کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے ) اپنی زندگیوں میں ہی قرض ادا کر دیں ۔
[نيل الأوطار: 624/3]
نیز یاد رہے کہ جس شخص کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے وہ محض ضمانت کے لفظ ادا کر لینے سے ہی بری نہیں ہو گا بلکہ وہ مضمون شے کی ادائیگی سے بری ہوگا ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: احمد: 330/3 ، ابو داود: 3343 ، نسائي: 1962 ، دار قطني: 293 ، ابن حبان: 1162 – الموارد ، حاكم: 58/2]
(ابو حنیفہؒ) میت کی طرف سے ضمانت میں یہ شرط ہے کہ میت نے ترکہ میں قرض کے برابر مال چھوڑا ہو ورنہ ضمانت صحیح نہیں ہو گی ۔
[الهداية: 95/3 ، الحاوى: 454/6 ، الأم: 264/3 ، الكافي: ص / 399 ، الخرشي: 23/6 ، المغنى: 105/7 ، كشاف القناع: 374/3 ، نيل الأوطار: 624/3]
واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں ایسی شرط نہیں لگائی لٰہذا ایسی تمام شروط جو کتاب و سنت میں نہیں ہیں باطل و بے بنیاد ہیں ۔
اگر وہ اس شخص کا مامور ہو جس کی ضمانت دے رہا ہے تو اس کی طرف رجوع کرے گا
مامور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مقروض نے اسے حکم دیا ہو کہ میری طرف سے تم ادائیگی کر دو جب میرے پاس مال ہو گا تو تمہیں ادا کر دوں گا ۔
کیونکہ قرض اسی پر ہے اور اس کی ادائیگی اسی پر لازم ہے ۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا [النساء: 58]
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتیں ان کے اہل افراد کو ادا کرو ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كان لي مثل أحد ذهبا ما يسرني أن لا يمر على ثلاث وعندى منه شيئ إلا شيئ أرصده لدين
”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے اس بات پر خوشی ہو گی کہ تین دن بھی مجھ پر نہ گزرے ہوں کہ اس سارے مال کو میں نے خرچ کر دیا ہو الا کہ صرف اتنا ہی باقی ہو جسے میں نے قرض کی ادائیگی کے لیے روک رکھا ہو ۔“
[بخاري: 2389 ، كتاب الاستقراض: باب أداء الديون]
جو کسی شخص کو حاضر کرنے کا ضامن بنے اس پر واجب ہے کہ اسے حاضر کرے ورنہ وہ اس پر موجود تاوان ادا کرے گا
➊ گذشتہ حدیث اس پر شاہد ہے ۔
➋ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الزعيم غارم
”ضمانت دینے والا چٹی بھرے گا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 3044 ، كتاب البيوع: باب فى تضمين العارية ، ابو داود: 3565]