ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 40-41
سوال
کیا ان ادویات کا استعمال جائز ہے جن میں شراب کی آمیزش ہو، خاص طور پر جب یہ دفاعی یا علاج کے مقاصد کے لیے ہو؟ بعض ادویات میں شراب کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور بعض میں زیادہ، لیکن دونوں صورتوں میں یہ نشہ آور نہیں ہوتی۔
جواب
شراب ملی ادویات کا استعمال:
- جس دوا میں شراب شامل ہو، اس کا استعمال جائز نہیں، چاہے وہ دوا کے طور پر ہو یا غذا کے طور پر۔
- اس ممانعت کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:
طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے منع فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میں اسے دوا کے لیے بناتا ہوں۔” آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔”
(مشکوٰۃ، باب الخمر و وعید شاربہا، فصل اوّل، صفحہ 309)
شرعی اصول:
- شراب کو کسی بھی صورت میں دوا یا علاج کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
- اسلام نے نشہ آور اور ناپاک اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنے سے روکا ہے، چاہے وہ معمولی مقدار میں ہوں یا زیادہ۔
خلاصہ:
- شراب ملی ادویات کا استعمال، چاہے وہ نشہ آور ہوں یا نہ ہوں، شرعاً ناجائز ہے۔
- رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق، شراب دوا نہیں بلکہ بیماری ہے، اس لیے ایسی ادویات سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
حوالہ:
مشکوٰۃ، باب الخمر و وعید شاربہا، فصل اوّل، صفحہ 309، تنظیم اہل حدیث، جلد 22، شمارہ 6، الجواب صحیح: علی محمد سعیدی، جامعہ سعیدیہ، خانیوال مغربی پاکستان