شراب اور دیگر منشیات کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

شریعت اسلامیہ میں بوقت ضرورت شراب پینے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ڈاکٹر نے اس کو (بطور علاج ) شراب پینے کا حکم دیا ہو؟

جواب:

جمہور علماء کے نزدیک شراب اور خبیث اشیاء میں سے کوئی بھی ایسی چیز ، جس کو اللہ نے حرام کیا ، پی کر علاج کرنا حرام ہے ۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ طارق بن سوید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے استعمال کے متعلق سوال کیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کے استعمال سے منع کر دیا ۔ انہوں نے عرض کیا: میں اس کو دوائی میں استعمال کرتا ہو تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه ليس بدواء ، ولكنه داء [صحيح مسلم ، رقم الحديث 1984]
”بلاشبہ وہ (شراب) دوائی نہیں ہے وہ تو خود بیماری ہے ۔“
اس کو امام احمد اور مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے ۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ خواتین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله أنزل الدواء و الداء ، وجعل لكل داء دواء فتداووا ولا تداووا یحرام [ضعيف ۔ سنن أبى داود ، رقم احدنيت 3874]
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے دوائی بھی نازل کی ہے اور بیماری بھی ، اور ہر بیماری کا علاج بھی اتارا ہے ، لہٰذا تم علاج کرو ، لیکن حرام چیز سے علاج نہیں کرو‘ اس کو ابوداود سے روایت کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدواء الخبيث وفي لفظ: يعني السم [صحيح ۔ سنن ابن ماجه ، رقم الحديث {3459]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوائی کے استعمال سے منع کر دیا ۔
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں:
خبیث دوائی یعنی زہر (وغیرہ سے علاج معالجہ کرنا )“
اس کو احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ عدالت نے اپنی صحیح ابن مسعود کی روایت ذکر کی ہے:
إن الله لم يجعل شفاء كم فيما حر م عليكم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5291]
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری شفاء اس چیز میں نہیں بھی ہے جس کو اس نے تم پر حرام کیا ہے ۔ “
ابن مسعود کی موقوف روایت کو ابو حاتم بن حبان نے اپنی ”صحیح“ میں نبی سلام سے مرفوع بیان کیا ہے ۔ یہ اور اس جیسی نصوص خبیث چیز سے علاج کرنے کی ممانعت میں صریح ہیں اور شراب سے علاج کرنے کے حرام ہونے کی صراحت کرتی ہیں ، کیونکہ شراب ام الخبائث اور گناہوں کا مجموعہ ہے ۔
علماء کوفہ میں سے جس نے شراب سے علاج کو مباح قرار دیا ہے اس نے اس کو مجبور آدمی کے مردار کھانے اور خون پینے پر قیاس کیا ہے ، مگر یہ قیاس نص کے خلاف ہونے کی وجہ سے کمزور ہے ، کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے ، وہ اس طرح کہ مردار کھانے اور خون پینے سے ضرورت پوری ہوتی ہے اور زندگی بچ جاتی ہے اور یقیناًً اللہ نے اس کو زندگی بچانے کے لیے متعین کیا ہے ، لیکن علاج کی خاطر شراب پینا تو اس سے بیماری کا ازالہ متعین و مقرر نہیں ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ شراب خود بیماری ہے ، دوائی نہیں ہے ۔ اور نہ ہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے شراب کو طریقہ علاج کے طور پر متعین و مقرر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اس مسلمان پر جس نے اپنی بیماری کے علاج کے لیے صرف انھیں چیزوں پر اکتفاء کیاجن کو اللہ نے طیب اور پاکیزہ چیزوں میں سے جائز اور مباح قرار دیا ہے ، اور مباح چیزوں پر اکتفاء کرتے ہوئے ان چیزوں سے بے پرواہی اختیار کی جن کو اللہ نے خبیث اور ممنوعہ چیزوں میں سے حرام قرار دیا ہے ۔

(سعودی فتوی کمیٹی )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: