شب برات کی فضیلت اور متعلقہ شبہات
تحریر: الیاس حامد

پہلا شبہ: شب برات کی فضیلت میں احادیث

شبہ

پندرہویں شعبان کی رات کو عبادت کے لیے مخصوص کرنے کی فضیلت میں کئی احادیث موجود ہیں، جو اس رات کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔

جواب

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے علماء نے حدیث کو جانچنے کے جو اصول وضع کیے ہیں، ان کے مطابق شب برات کی فضیلت سے متعلق تمام احادیث ضعیف ہیں۔ حدیث اور رجال کے ماہرین، جرح و تعدیل اور نقد و علل کے ماہرین نے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے:

"إذا صح الحديث فهو مذهبي”
(جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے)۔

یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ضعیف احادیث پر عمل کو قبول نہیں کرتے تھے۔

دوسرا شبہ: فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل

شبہ

فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔

جواب

ضعیف حدیث کا مطلب ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں۔ غیر ثابت شدہ بنیاد پر کسی عمل کو فضیلت دینا جائز نہیں۔ نبی ﷺ سے ثابت شدہ اعمال ہی پر اجر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ شریعت میں عمل کے قبول ہونے کے لیے دو شرائط ہیں:

➊ عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
➋ عمل نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد”
(جو عمل ہمارے طریقے کے مطابق نہ ہو، وہ مردود ہے)۔

تیسرا شبہ: ضعیف حدیث بھی حدیث ہے

شبہ

ضعیف حدیث بھی حدیث کہلاتی ہے، تو اس پر عمل کیوں نہ کیا جائے؟ جیسے بوڑھے والد کو والد ماننا نہیں چھوڑتے، اسی طرح ضعیف حدیث کو بھی قبول کرنا چاہیے۔

جواب

ضعیف حدیث نبی اکرم ﷺ کی بات نہیں ہوتی، اس لیے اسے نبی ﷺ کی بات مان کر عمل کرنا غلط ہے۔ کسی کے والد کا بوڑھا ہونا اور حدیث کا ضعیف ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ والد کا رشتہ بڑھاپے سے ختم نہیں ہوتا، لیکن ضعیف حدیث کا رشتہ نبی اکرم ﷺ سے ختم ہو چکا ہوتا ہے، اس لیے وہ قابل عمل نہیں۔

چوتھا شبہ: شب برات کی فضیلت میں ایک حدیث قابل عمل ہے

شبہ

بعض علماء، جیسے شیخ البانی رحمہ اللہ، نے شب برات کی ایک حدیث کو حسن قرار دیا ہے، پھر اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟

جواب

شیخ البانی رحمہ اللہ نے ایک حدیث کو حسن لغیرہ قرار دیا، لیکن کئی دیگر علماء نے اسے سخت ضعیف کہا ہے۔ اگر یہ حدیث حسن بھی مان لی جائے تو اس سے صرف شب برات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، عبادت کے لیے اس رات کو خاص کرنے کا حکم نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر:

◈ جمعہ کے دن اور رات کی فضیلت تو ثابت ہے، لیکن عبادت کے لیے مخصوص کرنے کی ممانعت ہے۔
◈ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شب برات میں مخصوص عبادت کا کوئی ثبوت نہیں۔

پانچواں شبہ: شریعت میں موجود اعمال انجام دینا

شبہ

شب برات میں ہم صرف وہ اعمال انجام دیتے ہیں جن کی اصل شریعت میں موجود ہے، جیسے نوافل، دعا، تلاوت قرآن، صدقہ، اور زیارت قبور۔

جواب

اگر کوئی اذان میں اپنی طرف سے اضافہ کر دے، مثلاً "اشہد ان لا الہ الا اللہ” کا اضافہ کرے، تو یہ عمل باطل ہوگا کیونکہ نبی ﷺ نے ایسا نہیں سکھایا۔
اسی طرح نبی ﷺ نے شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کے لیے خاص نہیں کیا۔ اس رات عبادت کو اپنی طرف سے خاص کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا۔

چھٹا شبہ: شب برات کا ذکر قرآن میں

شبہ

سورہ دخان کی ابتدائی آیات میں"لیلۃ مبارکہ” کا ذکر ہے، جو بعض مفسرین کے مطابق شعبان کی پندرہویں شب ہے۔

جواب

سورہ دخان میں جس رات کا ذکر ہے، وہ وہی رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ سورہ بقرہ اور سورہ قدر کے مطابق قرآن رمضان کی "لیلۃ القدر” میں نازل ہوا۔ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، نہ کہ شعبان میں۔
اکثر مفسرین نے"لیلۃ مبارکہ” کی تفسیر لیلۃ القدر سے کی ہے، اور یہی تفسیر کتاب و سنت کے مطابق درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے