شادی شدہ بیٹے یا بیٹی کو زکوٰۃ دینے کا شرعی حکم

سوال

کیا شادی شدہ بیٹے یا بیٹی کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟

جواب از فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

عام قاعدہ یہ ہے کہ اصول (والدین) اور فروع (اولاد) ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ یعنی والدین اپنی اولاد کو اور اولاد اپنے والدین کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔

البتہ، اگر کوئی خاص صورت ہو، جیسے قرض یا سخت مالی تنگی، تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
"کیا انسان اپنی اولاد کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟”

انہوں نے جواب دیا:
اس میں تفصیل ہے، چنانچہ اگر والد اپنی اولاد کو زکوٰۃ اس نیت سے دے کہ وہ ان کا نفقہ نہ اٹھائے تو یہ جائز نہیں۔ لیکن اگر والد اپنے بیٹے کی طرف سے قرض ادا کرنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے، مثلاً: بیٹے نے کسی کی گاڑی کو ٹکر ماری اور حادثے کی وجہ سے دوسرے شخص کا 10,000 ریال کا نقصان ہوا، تو والد اپنی زکوٰۃ سے یہ رقم ادا کر سکتا ہے۔

📖 [مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین: 18/508، 18/415]

فقروفاقہ کی صورت میں شادی شدہ بیٹی کو زکوٰۃ دینا

اگر بیٹی فقروفاقہ کی حالت میں ہو، تو والد اس کو زکوٰۃ دے سکتا ہے۔

صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ:
"ایک شخص یزید نے صدقہ کا مال مسجد میں رکھا تاکہ کسی حق دار کو دیا جائے، اتفاقاً اس کا بیٹا آکر وہ مال لے گیا۔ جب یزید کو معلوم ہوا تو اس نے کہا:

وَاللّه مَا اِیَّاکَ اَرَدْتُّ
"اللہ کی قسم، میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا۔”

جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

“لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْد وَ لَكَ مَا اَخَذْتَ یَا مَعْن”
"یزید! تیرے لیے وہی ہے جو تیری نیت تھی، اور معن! جو تُو نے لیا وہ تیرے لیے جائز ہے۔”

📖 [صحیح البخاری: 1422]

اس حدیث میں اگرچہ بیٹے کا ذکر ہے، لیکن بیٹی کا بھی یہی حکم ہوگا، خاص طور پر جب اس کا شوہر بے روزگار، لاپتہ، یا فوت ہو چکا ہو۔

📖 [فتویٰ حافظ ثناءاللہ مدنی، ج 3، کتاب الصوم، ص 325]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1