سیکولر ریاست کی حقیقت اور مذہب دشمنی

سیکولر ریاست کا حقیقی مفہوم

سید متین نے پروفیسر امجد علی شاکر کے ایک اقتباس کی بنیاد پر سوال اٹھایا کہ سیکولر ریاست کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ پروفیسر شاکر کا کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے سیکولرازم کا ترجمہ "لادینی” کیا، جو درست نہیں، بلکہ سیکولرازم کا مطلب "ہمہ دینی” یا "کثیر مذہبی” ہے۔ ان کے مطابق اگر اس ترجمے کو اپنایا جائے تو یہ اصطلاح زیادہ پسندیدہ بن سکتی ہے۔

مولانا مودودی کی رائے اور تنقید

مولانا مودودی کی رائے کے مطابق، سیکولر ریاست صرف لادینی نہیں بلکہ مذہب دشمن ہوتی ہے۔ ان کے موقف کی روشنی میں پروفیسر شاکر کی تعریف پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم کو خوشنما الفاظ میں پیش کرنے سے اس کے اصل حقائق نہیں بدل سکتے۔ پروفیسر شاکر کے موقف کا مقصد بظاہر سیکولرازم کو خوبصورت لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے، تاکہ اس کی حقیقت سے عوام کی آنکھیں بند کی جا سکیں۔

"کثیر مذہبی ریاست” کے نظریے پر سوالات

سیکولر نظریے کے حامی اکثر یہ کہتے ہیں کہ سیکولرازم "کثیر مذہبی ریاست” کی تشکیل کا ذریعہ ہے، مگر اس تصور پر کئی سوالات اٹھتے ہیں:

  • قانون سازی کا ماخذ کیا ہوگا؟
    اگر کثیر مذہبی ریاست کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب کی تعلیمات (مثلاً قرآن، بائبل، گیتا وغیرہ) کی روشنی میں قوانین بنائے جائیں، تو یہ منطقی طور پر ممکن نظر آتا ہے، مگر عملاً یہ ممکن نہیں۔
    اگر اس کے برعکس تمام الہامی کتب کو نظرانداز کرکے قانون سازی کسی غیر مذہبی بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر ہو، جیسا کہ موجودہ سیکولر نظاموں میں ہوتا ہے، تو "کثیر مذہبی ریاست” کا مطلب بے معنی ہو جاتا ہے۔
  • مذہب کو نجی دائرے تک محدود کرنا
    سیکولرازم کے تحت ریاست مذہب کو عوامی زندگی سے خارج کر دیتی ہے، اور مذہب کو صرف نجی دائرے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ اس سے مذہب کی حیثیت ایک ذاتی مشغلہ یا کھیل تماشا بن کر رہ جاتی ہے، جیسا کہ تاریخ نے بھی ثابت کیا ہے۔

"ایک کے سوا سب اقلیت” کا فریب

سیکولرازم کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہبی ریاست میں ایک مذہب کو اکثریت کی حیثیت ملتی ہے، جبکہ دیگر تمام مذاہب اقلیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق، اسی لیے ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے تاکہ سب کے حقوق محفوظ رہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ دعویٰ ایک دھوکہ ہے:

  • سیکولرازم سب کو اقلیت بنا دیتا ہے
    سیکولر نظام میں "ہیومن رائٹس” کے نام پر ایسا انتظام قائم کیا جاتا ہے، جو تمام مذاہب کو یکساں طور پر اقلیت بنا دیتا ہے۔
    تمام مذاہب کو اجتماعی نظام سے بے دخل کرکے ایک غیر مذہبی (سیکولر) اصول ان پر مسلط کیا جاتا ہے۔ گویا کہ یہ "سب کے سوا ایک” (سیکولر تصورِ خیر) کا غلبہ ہے۔
  • سیکولرازم کا حقیقی ایجنڈا
    سیکولرازم کا مقصد مذہبی تنوع کو برقرار رکھنا نہیں بلکہ تمام مذاہب کو ریاستی نظام سے بے دخل کرکے ایک غیر مذہبی اخلاقی نظام مسلط کرنا ہے۔ نتیجتاً، سیکولر نظام مذہبی آزادی کے نام پر سب مذاہب کو ان کے اجتماعی کردار سے محروم کر دیتا ہے۔

سیکولرازم: ایک نظام یا مابعد الطبعیاتی فلسفہ؟

سیکولرازم کو اکثر صرف ایک "سیاسی بندوبست” قرار دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مابعد الطبعیاتی اور اخلاقی فلسفہ ہے۔ اس کے پیچھے مخصوص نظریات کارفرما ہیں، جنہیں اکثر سیکولرازم کے حامی نظرانداز کر دیتے ہیں۔

  • کیا سیکولرازم نئی چیز ہے؟
    سیکولرازم کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی زندگی میں مذہبی آزادی دیتا ہے۔ مگر یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے، کیونکہ صدیوں سے مسلمان، ہندو، سکھ، اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ایک ہی معاشرے میں اپنی انفرادی مذہبی زندگی گزارتے آئے ہیں۔
    مثال کے طور پر، مسلمانوں کے دورِ حکومت میں (ہندوستان میں ہزار سال تک)، تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی مذہبی رسومات آزادانہ طور پر ادا کرتے تھے، ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں، اور انہیں اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ جیسے معاملات انجام دینے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔
  • سیکولر نظام کی "انوکھی” بات کہاں ہے؟
    اگر سیکولرازم کا دعویٰ صرف اتنا ہے کہ وہ انفرادی مذہبی آزادی کو یقینی بناتا ہے، تو یہ کوئی نیا یا انوکھا نظریہ نہیں۔ مسلمانوں کی خلافتوں اور سلطنتوں میں اقلیتوں کو ہمیشہ مذہبی آزادی حاصل رہی ہے۔ پھر سیکولرازم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

سچ کیوں چھپایا جاتا ہے؟

سیکولرازم کے حامی یہ سچائی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ ایک "مذہب مخالف” نظریہ ہے، جو مذہبی اقدار اور اصولوں کو نجی دائرے میں محدود کرکے انہیں ریاستی نظام سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

سیکولرازم کا حقیقی مقصد

سیکولرازم کے پیروکاروں کا اصل مقصد مذہبی نظام کی جگہ ایک غیر مذہبی (سیکولر) نظام مسلط کرنا ہے۔
اس حقیقت کو چھپانے کے لیے سیکولرازم کو "کثیر مذہبی ریاست” یا "سیاسی بندوبست” کے نام پر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے