سیکولر ریاست مذہبی آزادی اور اقدار کی تباہی

سیکولر ریاست کا دعویٰ: مذہبی اختلافات کا خاتمہ

سیکولر نظریہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست مذہبی فرقوں (شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی) کے اختلافات ختم کرکے ان میں پرامن بقائے باہمی کو ممکن بناتی ہے۔ یہاں تک کہ چند دینی طبقے بھی اس دعوے کو حقیقت سمجھ کر اسے سیکولر ریاست کی خوبی مان لیتے ہیں۔

سوال: کیا مذہبی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے مسائل حل ہوتے ہیں؟

اہم سوال: کیا سیکولر ریاست مذہبی اختلافات کو مذہب کی اقداری حیثیت برقرار رکھتے ہوئے حل کرتی ہے، یا مذہب کو غیرضروری اور بےمعنی قرار دے کر ان مسائل کو حل کرتی ہے؟

حقیقت:

➊ سیکولر ریاست مذہب کو ایک بےوقعت اور غیرضروری معاملہ سمجھتی ہے۔

➋ جب مذہب کی اقداری حیثیت ختم کردی جاتی ہے، تو یہ معاشرتی ترجیحات میں ایک عام چیز، جیسے چائے یا کافی کا انتخاب، بن کر رہ جاتی ہے۔

سیکولر نظریہ اہلِ مذہب کے لیے خطرناک

اسلام کو دین سمجھنے والوں کے لیے یہ صورتحال تشویشناک ہونی چاہیے، لیکن چند لوگ سیکولر ریاست کے ان اقدامات کو اس کی خوبی سمجھ لیتے ہیں، جو حقیقت میں مذمت کے قابل ہیں۔

سیکولر ریاست اور مذہبی آزادی کا فریب

دعویٰ:

یہ کہا جاتا ہے کہ "سیکولر ریاست مذہب کے حصول میں کسی پر جبر نہیں کرتی”، لیکن درحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب کو غیرضروری اور بےمعنی قرار دیا گیا ہے۔

وضاحت:

کوئی نظام صرف انہی چیزوں کے لیے جبر کرتا ہے جنہیں وہ اہم اور قابل قدر سمجھتا ہے۔

مثال: سیکولر ریاست سائنسی علوم کے حصول کے لیے بھرپور دباؤ ڈالتی ہے کیونکہ وہ اسے اپنے نظام کے لیے ضروری سمجھتی ہے، لیکن مذہب کو کھیل تماشا سمجھ کر اس کے لیے جبر کا کوئی تصور نہیں رکھتی۔

مذہبی آزادی کا دھوکہ:

➊ سیکولر نظام کی طرف سے چند انفرادی مذہبی رسومات کی اجازت دینا دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان رسومات کو غیرمتعلقہ اور بےمعنی سمجھتا ہے، نہ کہ ان کا احترام کرتا ہے۔

➋ حقیقت یہ ہے کہ سیکولر نظام مذہب کو سماجی زندگی کا ایک غیرضروری پہلو تصور کرتا ہے، اور اس آزادی کو اس کی اہمیت کے بجائے اس کی بےمعنی حیثیت کے تحت فراہم کرتا ہے۔

سیکولر ریاست اور اہل مذہب کی غلط فہمی

سیکولر نظام میں اسلام کے فروغ کا نظریہ:

کچھ مفکرین (جیسے وحید الدین خان صاحب) کا خیال ہے کہ اسلام سیکولر نظام میں بہتر پھیلتا ہے۔

تنقید:

➊ یہ نظریہ یا تو اسلام کو محض چند عبادات تک محدود سمجھتا ہے، یا سیکولر ریاست کے غیرجانبداری کے دعوے سے حد سے زیادہ متاثر ہوچکا ہے۔

➋ حقیقت یہ ہے کہ سیکولر نظام کا دعویٰ غیرجانبداری محض فریب ہے، اور اسلام جیسی حقانیت کو کسی ایسے نظام میں پنپنے کا موقع دینا حقیقت میں زہر کو تریاق سمجھنے کے مترادف ہے۔

سیکولر ریاست اور مذہبی طبقے کا دھوکہ

سیکولر ریاست کے جھوٹے دعوے سے متاثر ہوکر تمام مذہبی گروہ (بریلوی، دیوبندی، سلفی، شیعہ) خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

➊ یہ لوگ اس نظام کو برابری، مساوات، اور انصاف کی علامت سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں سیکولر نظام ان سب کی نفی کرکے ایک ایسی اجتماعیت (سول سوسائٹی) کو فروغ دیتا ہے جو تمام مذہبی شناختوں کو بےمعنی بنا دیتی ہے۔

سیکولر ریاست کا غیرجانبداری کا جھوٹ

استدلال: غیرجانبدار قوت کو اقتدار دینا

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی گروہوں کے باہمی اختلافات کے باعث بہتر یہی ہے کہ اقتدار کسی غیرجانبدار قوت کے سپرد کر دیا جائے۔

سوال:

کیا کسی خاندان کی اندرونی ناچاقی کی بنیاد پر کسی تیسرے فریق کو گھر کا مالک بننے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جو تمام افراد کے حقِ ملکیت کو ختم کر دے؟

حقیقت:

➊ سیکولر ریاست کے تحت مسلم، عیسائی، ہندو ہونا سب بےمعنی بن جاتا ہے۔

➋ ایسے نظام میں مذہبی شناختوں کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ ان کی بقا کی کوئی بات کی جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے