سیدنا عمر بن خطابؓ اور دودھ میں پانی ملانے کا سبق آموز واقعہ
تحریر: شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

واقعہ کی تفصیل

❀ اسلم مولی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
میں ایک رات امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا، آپ مدینہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے۔ جب تھک گئے تو رات کے وقت ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اچانک ایک عورت کی آواز سنائی دی، جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی:

"بیٹی! اٹھو اور اس دودھ میں پانی ملا دو۔”

بیٹی نے ماں سے کہا:

"اماں جان! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر المومنین نے آج حکم دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے؟”

ماں نے پوچھا:

"بیٹی! امیر المومنین نے کیا حکم دیا ہے؟”

بیٹی نے جواب دیا:

"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منادی کو حکم دیا ہے کہ اعلان کرے: دودھ میں پانی ملانا منع ہے۔”

ماں نے کہا:

"بیٹی! دودھ میں پانی ملا دو، یہاں نہ عمر دیکھ رہے ہیں اور نہ ان کا کوئی منادی!”

بیٹی نے جواب دیا:

"اماں جان! اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کر سکتی کہ جلوت میں امیر المومنین کی اطاعت کروں اور خلوت میں ان کی نافرمانی کر دوں۔”

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سب باتیں سن رہے تھے، آپ نے فرمایا:

"اسلم! اس دروازے پر نشان لگا دو اور اس جگہ کو اچھی طرح پہچان لو۔”

پھر آپ رضی اللہ عنہ گشت پر روانہ ہو گئے۔

تحقیقات اور نکاح کا فیصلہ

جب صبح ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسلم سے کہا:

"رات کو بات کرنے والی عورت اور اس کی بیٹی کے بارے میں تحقیق کرو۔ دیکھو کہ وہ کون تھیں اور ان کا کوئی شوہر ہے یا نہیں؟”

اسلم وہاں پہنچے اور معلوم ہوا کہ وہ لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کا کوئی شوہر نہیں تھا، جبکہ اس کی ماں بھی وہاں موجود تھی۔ اسلم نے واپس آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ساری صورتحال بتائی۔

اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا:

"کیا تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے؟ میں اس لڑکی سے اس کی شادی کرا دیتا ہوں۔ اگر میں شادی کی عمر میں ہوتا تو میں خود اس لڑکی سے نکاح کر لیتا۔”

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا:

"میری پہلے ہی بیوی موجود ہے۔”

سیدنا عبد الرحمن بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی کہا:

"میری بھی بیوی ہے۔”

لیکن عاصم بن عمر رحمہ اللہ نے عرض کیا:

"ابا جان! میری کوئی بیوی نہیں ہے، آپ میری شادی کر دیں۔”

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا اور عاصم بن عمر رحمہ اللہ سے اس کی شادی کرا دی۔

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی ولادت

اس نکاح سے عاصم بن عمر رحمہ اللہ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی، پھر اس بیٹی کے ہاں بھی ایک بیٹی پیدا ہوئی، اور اس بیٹی نے مشہور خلیفہ امیر المومنین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو جنم دیا۔

(أخبار عمر بن عبد العزيز للآجري، ص 48-49، تاریخ ابن عساکر : 253/70، مناقب عمر بن عبد العزيز لابن الجوزي، ص 7-8، مسند الفاروق لابن كثير : 129/2، وسنده حسن)

ام عاصم کے بارے میں وضاحت

❀ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"صحیح بات یہ ہے کہ امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی والدہ ‘ام عاصم’، عاصم بن عمر بن خطاب رحمہ اللہ کی بیٹی ہیں، نہ کہ ان کی نواسی۔”

(تاریخ ابن عساکر : 253/70)

حدیث کی سند اور محدثین کے اقوال

یہ واقعہ حسن سند کے ساتھ مروی ہے۔ اس میں عبد اللہ بن زید بن اسلم کا ذکر آتا ہے، جن کے بارے میں مختلف محدثین کی آراء ہیں۔

جن محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے:

◈ امام احمد بن حنبل
◈ امام ابو حاتم رازی
◈ امام علی بن مدینی
◈ امام بخاری (نقلاً)
◈ امام معن بن عیسی
◈ حافظ ابن سعد رحمہم اللہ
◈ امام عبد الرحمن بن مہدی (ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے)
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ
◈ امام ابن شاہین رحمہ اللہ (الثقات میں ذکر کیا)
◈ حافظ ابن خلفون رحمہ اللہ (ثقات میں ذکر کیا)

جن محدثین نے انہیں ضعیف کہا ہے:

◈ امام یحییٰ بن معین
◈ امام ابو زرعہ
◈ امام نسائی
◈ امام ابن عدی
◈ حافظ ساجی
◈ حافظ جوزجانی
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ

📖 نتیجہ: جمہور محدثین نے عبد اللہ بن زید بن اسلم کی توثیق کی ہے، اس لیے یہ روایت حسن درجے کی ہے۔

نتیجہ اور سبق

یہ واقعہ دیانت داری، تقویٰ، اور عدل و انصاف کی ایک روشن مثال ہے۔ ایک عام لڑکی کے اللہ کا خوف اور سچائی پر قائم رہنے کے باعث وہ نہ صرف ایک نیک شخص کی بیوی بنی، بلکہ اس کی نسل میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جسے تاریخ میں عادل خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا انسان دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتا ہے، اور اس کے نیک عمل کی برکتیں اس کی نسلوں تک جاری رہتی ہیں۔

"جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستے آسان کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔”

(سورہ الطلاق: 2-3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1