سیدنا علی کے لیے سورج پلٹنے کی روایات کا تحقیقی جائزہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

روایت نمبر 1: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب روایت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ اس دوران سیدنا علی عصر کی نماز نہ پڑھ سکے اور سورج غروب ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: "علی! کیا آپ نے نماز پڑھی؟” سیدنا علی نے عرض کیا: "نہیں”۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے۔” سیدہ اسماء فرماتی ہیں: "میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا اور پھر اسے غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوتے بھی دیکھا۔”
(السنۃ لابن أبي عاصم: 1323، مشکل الآثار للطحاوي: 9/2، المعجم الکبیر للطبراني: 152/24، تاریخ دمشق لابن عساکر: 314/42)

تبصرہ

اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کا حال مجہول ہے۔ امام ابن حبان کے علاوہ کسی نے ان کو ثقہ نہیں کہا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس کا حال مجہول ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 89/6)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس روایت میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں پہچانتا”۔
(مجمع الزوائد: 185/9)

ابراہیم کے بارے میں امام ابن حبان کی توثیق کو قبول کرتے ہوئے بعض علماء نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، لیکن یہ توثیق تسامح پر مبنی ہے۔

دوسری وجہ ضعف یہ ہے کہ اس روایت میں بیان کرنے والی فاطمہ بنت حسین بن علی جو کہ ثقہ ہیں، یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت براہ راست سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے سنی یا نہیں۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ معلوم نہیں کہ فاطمہ نے اسما سے سنا ہے یا نہیں”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 89/6)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ نہ ابراہیم کا فاطمہ سے اور نہ ہی فاطمہ کا سیدہ اسما سے سماع ثابت ہے۔ اس حدیث کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام راوی عادل و ضابط ہوں اور ان کا ایک دوسرے سے سماع ثابت ہو، جو کہ اس روایت میں معلوم نہیں ہو سکا۔
(منہاج السنۃ النبویۃ: 189/4)

امام طحاوی کی روایت کے بارے میں وضاحت

تنبیہ
بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، لیکن یہ دعویٰ بے بنیاد ہے اور حقیقت سے خالی ہے۔

روایت نمبر 2: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور روایت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صہبا کے مقام پر نماز ظہر ادا کی اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک کام کے لیے بھیجا۔ جب سیدنا علی واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک سیدنا علی کی گود میں رکھا اور علی رضی اللہ عنہ نے حرکت نہ کی تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آئے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لیے روکا ہوا تھا، لہٰذا ان پر سورج کو لوٹا دے۔” سیدہ اسماء فرماتی ہیں کہ سورج دوبارہ طلوع ہوا اور اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اٹھے، وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی، اس کے بعد سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔ یہ واقعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر صہبا کے مقام پر پیش آیا۔
(مشکل الآثار للطحاوي: 1068، المعجم الکبیر للطبراني: 144/24)

تبصرہ

اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔ اس ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس روایت کی سند میں ایسے راوی ہیں جن کا حال مجہول ہے، مثلاً عون اور ان کی والدہ۔ ان کے عدل و ضبط کے متعلق کچھ معلوم نہیں، اسی لیے ان کی روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسا اہم معاملہ ان کی روایت سے ثابت نہیں ہو سکتا جس کو کسی مشہور محدث نے بیان نہ کیا ہو۔”
(البدایۃ والنہایۃ: 88/6)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عون بن محمد کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے”۔
(مجمع الزوائد: 237/3)

ابن ترکمانی حنفی نے بھی اس روایت کی سند کے متعلق یہی کہا کہ اس میں ایسے راوی ہیں جن کے حالات کا جاننا ضروری ہے۔
(الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی: 396/3)

لہٰذا، عون بن محمد کی ایک اور روایت کو بعض محدثین نے "حسن” یا "جید” کہا ہے، جیسے حافظ منذری
(الترغیب والترہیب: 89/3) اور حافظ ابن حجر نے اس کو "مقبول” قرار دیا ہے
(تقریب التہذیب لابن حجر: 8750)، لیکن ان کا یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے۔

حافظ بوصیری اور سندی حنفی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(مصباح الزجاجہ: 52/2، حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ: 1611)

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے اور اس میں کئی مجہول راوی ہیں”۔
(تاریخ دمشق: 314/42)

روایت نمبر 3: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب روایت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سے پوچھا: "کیا آپ نے عصر کی نماز ادا کی؟” سیدنا علی نے عرض کیا: "نہیں۔” تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! علی کے لیے سورج کو واپس لوٹا دے۔” سیدہ اسماء فرماتی ہیں کہ سورج واپس پلٹا، یہاں تک کہ اس کی روشنی میرے حجرے کے صحن کے درمیان میں پہنچ گئی۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 314/42، الموضوعات لابن الجوزی: 356/1، اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 338/1)

تبصرہ

یہ روایت باطل سند کی حامل ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. ابو العباس ابن عقدہ کا ضعف

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابن عقدہ کو "ضعیف” کہا ہے۔
(السنن: 264/2)

حمزہ بن یوسف سہمی کا قول:
"ابن عقدہ براثا کی جامع مسجد میں صحابہ کرام یا خاص طور پر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عیوب لکھواتا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی روایت کو ترک کر دیا۔”
(سوالات السہمي: 166)

امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"یہ بڑا حافظ تھا لیکن بغداد کے مشائخ نے اس پر جرح کی ہے۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 206/1)

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
"یہ برا آدمی تھا”۔
(تاریخ بغداد للخطیب: 22/5)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اس میں ضعف ہے اور اس کی روایت میں بدعت اور دشمنی صحابہ موجود ہے۔”
(سیر اعلام النبلاء: 341/5)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ابن عقدہ کو "متہم” قرار دیا اور کہا کہ یہ "خبیث رافضی” تھا۔
(جامع المسانید والسنن: 524/5)

2. عبدالرحمن بن شریک کا ضعف

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن شریک کو "واہی الحدیث” (کمزور) کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 244/5)

امام ابن حبان نے اگرچہ اسے اپنی کتاب "الثقات” میں ذکر کیا ہے، لیکن ساتھ ہی کہا:
"کبھی کبھی یہ غلطی کرتا ہے۔”
(الثقات: 375/8)

3. شریک بن عبداللہ القاضی کا ضعف

شریک بن عبداللہ القاضی جب کوفہ میں قاضی بنے، تو ان کا حافظہ کمزور ہو گیا تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ عبدالرحمن نے یہ روایت اپنے والد سے ان کے حافظے کے بگڑنے سے پہلے سنی تھی یا بعد میں۔

4. ابن الجوزی کا تبصرہ

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"یہ حدیث باطل ہے۔ عبدالرحمن بن شریک اپنے باپ سے روایت کر رہا ہے اور امام ابو حاتم نے عبدالرحمن کو کمزور قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں اس روایت کے گھڑنے کا الزام ابن عقدہ پر ہے، کیونکہ وہ رافضی تھا اور صحابہ کرام کے عیوب بیان کرتا تھا۔”
(الموضوعات: 356/1)

روایت نمبر 4: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب روایت

خیبر کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مالِ غنیمت کی تقسیم میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سے پوچھا: "کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی؟” سیدنا علی نے عرض کیا: "نہیں۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، اور سورج بلند ہو کر مسجد کے درمیان آ گیا، جس پر سیدنا علی نے نماز پڑھی۔ جب انہوں نے نماز مکمل کی، تو سورج دوبارہ غروب ہو گیا اور میں نے سورج کے غروب ہونے کی آواز سنی جو لکڑی میں آری چلانے جیسی تھی۔
(اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 340/1، منہاج السنۃ النبویہ لابن تیمیہ: 191/4، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 90/6)

تبصرہ

یہ روایت بھی جھوٹی ہے اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. ابو الحسن شاذان فضلی کے حالات زندگی

اس روایت کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ابو الحسن شاذان فضلی کے حالات زندگی معلوم نہیں ہیں، یعنی وہ مجہول ہیں۔

2. صباح بن یحییٰ کا ضعف

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فِیہِ نَظَرٌ” (یہ مجہول راوی ہے)۔
(التاریخ الکبیر: 315/4)

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کوفہ کے شیعوں میں سے ہے”۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 84/4)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ متروک بلکہ متہم بالکذب ہے”۔
(میزان الاعتدال: 306/2)

ابن عراق رحمہ اللہ بھی اسے "شیعہ، متروک اور متہم بالکذب” قرار دیتے ہیں۔
(تنزیہ الشریعہ: 67/1)

3. محمد بن صبیح دمشقی کی توثیق کا فقدان

اس روایت میں محمد بن صبیح دمشقی بھی شامل ہیں، جن کی توثیق درکار ہے، لیکن ان کے بارے میں بھی معتبر معلومات نہیں مل سکیں۔

4. دوسرے مجہول راوی

اس روایت میں مزید مجہول راوی بھی موجود ہیں، جیسے:

  • عبداللہ بن الحسین بن جعفر
  • حسین مقتول
  • فاطمہ بنت علی
  • ام الحسن بنت علی

ان سب راویوں کے حالات زندگی اور توثیق بھی درکار ہے، جو دستیاب نہیں۔

روایت نمبر 5: ابو القاسم الحسکانی کی روایت

ایک اور روایت ابو القاسم الحسکانی نے بیان کی ہے، جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "منہاج السنہ النبویہ” میں نقل کیا ہے۔ لیکن اس کی سند بھی من گھڑت ہے۔

تبصرہ

اس روایت کے مجہول راوی درج ذیل ہیں:

  • ام اشعث (مجہولہ راویہ)
  • احمد بن محمد بن یزید بن سلیم (اس کے بھی حالات زندگی نہیں ملے)

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت کسی معتبر ذریعہ سے نقل نہیں ہوئی۔ محدثین جانتے ہیں کہ امام سفیان ثوری اور امام عبدالرزاق نے اس روایت کو بیان نہیں کیا۔
(منہاج السنہ النبویہ: 190/4)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سند انتہائی منکر ہے۔
(البدایہ والنہایہ: 89/6)

روایت نمبر 6: سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے منسوب روایت

یہ روایت اس سند کے ساتھ بیان کی گئی ہے: حسین اشقر، علی بن عاصم، عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار، علی بن حسین، فاطمہ بنت علی، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا۔
(القاسم الحسکانی، کما فی منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 191/4، 192)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. حسین بن حسن اشقر کا ضعف

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے”۔
(مجمع الزوائد: 102/9)

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر الحدیث ہے” اور "اس کے پاس منکر روایات ہیں”۔
(التاریخ الکبیر: 385/2، التاریخ الصغیر: 291/2)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر الحدیث ہے، اگرچہ خود سچا تھا”۔
(سوالات ابن ہانی: 2358)

امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر احادیث بیان کرنے والا راوی ہے”۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 50/3)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ شیعہ اور متروک راوی ہے”۔
(تفسیر ابن کثیر: 570/3)

2. علی بن حسین کے حوالے سے ابہام

اگر علی بن حسین سے مراد زین العابدین ہیں، تو عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے ان کا زمانہ نہیں پایا، اور اگر علی بن حسین کوئی اور ہیں تو وہ نامعلوم ہیں۔

روایت نمبر 7: دوسری سند کے ساتھ روایت

اس سند کے ساتھ روایت بیان کی گئی ہے: عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن حسن، ان کی والدہ فاطمہ بنت حسین، سیدہ اسماء۔
(أخرجہ أبو الحسن شاذان الفضلی، کما فی اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 339/1)

تبصرہ

یہ سند بھی انتہائی جھوٹی ہے اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. شاذان فضلی کے حالات زندگی نامعلوم

شاذان فضلی کون ہیں؟ ان کے بارے میں کوئی معتبر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

2. امام طبرانی کے استاذ اسماعیل بن الحسن خفاف مجہول

اسماعیل بن الحسن خفاف کے بارے میں بھی کوئی معتبر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

3. یحییٰ بن سالم کے حالات زندگی نامعلوم

یحییٰ بن سالم کے بارے میں بھی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔

4. صباح مروزی کا ضعف

اگر یہ صباح بن یحییٰ ہے، تو یہ راوی متہم بالکذب ہے۔ اگر کوئی اور ہے، تو وہ مجہول ہے۔

5. فاطمہ بنت حسین کا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں

یہ تمام وجوہات اس سند کو انتہائی ضعیف اور ناقابل قبول بناتی ہیں۔

روایت نمبر 8: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے خلاف لڑائی میں شریک ہوئے۔ اگلے دن عصر کے وقت، سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے عصر کی نماز ابھی تک ادا نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا اور سو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ انہوں نے عصر کی نماز ادا نہیں کی کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے بیدار کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! تیرے بندے نے اپنی جان تیرے نبی پر قربان کر رکھی تھی، ان کے لیے سورج کو واپس لوٹا دے۔” پھر سورج دوبارہ طلوع ہوا، سیدنا علی نے وضو کیا، نماز ادا کی، اور سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔
(اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 340/1، 341)

تبصرہ

یہ روایت سفید جھوٹ ہے اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. شاذان فضلی کی مجہولیت

شاذان فضلی کے حالات زندگی معلوم نہیں ہیں اور وہ نامعلوم شخص ہے۔ یہ روایت منسوب کرنے والا کوئی جھوٹ کا ماہر معلوم ہوتا ہے۔

2. یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن علی کے حالات نامعلوم

اس سند میں شامل یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن علی کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے، جس سے اس راوی کا ضعف ظاہر ہوتا ہے۔

3. ابو اسحاق ابراہیم بن رشید کا تعارف درکار

ابو اسحاق ابراہیم بن رشید کے بارے میں بھی معلومات درکار ہیں، کیونکہ ان کی کوئی قابل اعتبار توثیق موجود نہیں ہے۔

4. عبداللہ بن فضل طائی کی توثیق

عبداللہ بن فضل طائی کے بارے میں مالینی کا قول ہے کہ عبداللہ بن منذر نے اسے ثقہ کہا، لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ غالی شیعہ تھا۔
(لسان المیزان لابن حجر: 326/3)

عبداللہ بن منذر ائمہ جرح و تعدیل میں سے نہیں، اس لیے ان کی توثیق معتبر نہیں مانی جاتی۔

5. عبیداللہ بن سعید بن کثیر بن عفیر کا ضعف

عبیداللہ بن سعید سخت مجروح راوی ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سعید سے روایت اس کا بیٹا عبیداللہ بیان کرتا تھا اور غالباً یہ تمام روایتیں عبیداللہ ہی کی گھڑنت ہیں”۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 412/3)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ اپنے باپ سے روایت کرکے ثقہ راویوں کی سند سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے، جو ثقہ راویوں کی حدیث جیسی نہیں ہوتی”۔
(المجروحین: 67/2)

حسین بن اسحاق اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جب یہ کوئی روایت منفرد بیان کرے، تو اس کی روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں”۔
(المجروحین: 67/2)

لہٰذا، امام ابو عوانہ رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں اس روایت کا ذکر کرنا مفید نہیں ہے۔

روایت نمبر 9: سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شوریٰ کے دن فرمایا:
"میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا میرے علاوہ کوئی ہے جس کے لیے سورج واپس پلٹ آیا ہو؟ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھے سو رہے تھے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، تو آپ نے فرمایا: علی! کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! ان کے لیے سورج کو واپس پلٹا دے، کیونکہ یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے”۔
(اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 341/1)

تبصرہ

یہ روایت صریح جھوٹ ہے اور خالص من گھڑت قصہ ہے۔ اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. شاذان فضلی کا نامعلوم ہونا

شاذان فضلی کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں، اور وہ مجہول راوی ہے۔

2. ابو الحسن بن صفوہ کا ضعف

ابو الحسن بن صفوہ بھی مجہول راوی ہے، جس کی کوئی معتبر توثیق موجود نہیں۔

3. حسن بن علی بن محمد عدوی، طبری کی توثیق درکار

حسن بن علی بن محمد عدوی کے بارے میں بھی معتبر توثیق دستیاب نہیں ہے۔

4. احمد بن علا رازی کا نامعلوم ہونا

احمد بن علا رازی کے حالات زندگی نہیں مل سکے، اور ان کی توثیق درکار ہے۔

5. اسحاق بن ابراہیم تیمی کی عدم شناخت

اسحاق بن ابراہیم تیمی کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔

6. ابراہیم بن یزید نخعی کا تدلیس کرنا

ابراہیم بن یزید نخعی مدلس ہیں، یعنی وہ روایات میں تدلیس کرتے ہیں۔

7. علقمہ کا سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سماع

علقمہ کا سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے، جس سے روایت کی سند مزید مشکوک ہو جاتی ہے۔

روایت نمبر 10: جویریہ بنت مسہر سے منسوب روایت

جویریہ بنت مسہر بیان کرتی ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور ان کا سر میری گود میں تھا”۔
(منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 194/4)

تبصرہ

یہ روایت بھی صریح جھوٹ ہے اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ سند پچھلی روایت سے زیادہ ضعیف ہے۔ اس میں ایسے مجہول راوی ہیں جن کی عدالت اور ضبط معروف نہیں۔ اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا، تو سیدنا علی کے مشہور رفقا اسے ضرور بیان کرتے۔ اس روایت کو ایک مجہول عورت جویریہ بنت مسہر نے بیان کیا ہے، جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ اس کے علاوہ جن راویوں نے اس سے روایت کی ہے، ان کے بھی حالات معلوم نہیں ہیں”۔
(منہاج السنۃ: 194/4)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ سند جھوٹی ہے اور اس کے اکثر راوی مجہول ہیں۔ یہ رافضیوں کی من گھڑت کہانی ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 92/6)

روایت نمبر 11: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھ کر سو گئے، جبکہ سیدنا علی نے عصر کی نماز ادا نہیں کی تھی اور سورج غروب ہو چکا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، جس کے نتیجے میں سورج پلٹ آیا اور سیدنا علی نے عصر کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔
(اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 338/1، منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 194/4)

تبصرہ

یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے، اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. دائود بن فراہیج کا ضعف

امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دائود بن فراہیج بڑھاپے میں مختلط ہو گیا تھا، یعنی اس کی یادداشت کمزور ہو گئی تھی۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: 230/3)

2. دائود بن فراہیج سے نیچے سند کا غائب ہونا

ابن مردویہ تک روایت کی سند غائب ہے، جو کہ ایک بڑی کمزوری ہے۔

3. دوسری سند کی باطل حیثیت

اللآلي المصنوعۃ للسیوطي میں اس روایت کی ایک اور سند بھی ہے، جو باطل ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. عمارہ بن فیروز کا ضعف

عمارہ بن فیروز مجہول راوی ہے اور اس کی حدیث پر متابعت نہیں کی گئی۔
(الضعفاء الکبیر: 316/3)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کون ہے؟ اس کا کوئی پتہ نہیں”۔
(میزان الاعتدال: 178/3)

2. یزید بن عبدالملک نوفلی کا ضعف

یزید بن عبدالملک نوفلی جمہور محدثین کے نزدیک سخت ترین ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی اور امام بزار رحمہم اللہ نے اسے ضعیف اور منکر الحدیث قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف” کہا ہے۔
(تقریب التہذیب: 7751)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے”۔
(میزان الاعتدال: 141/4)

3. یحییٰ بن یزید کا ضعف

یحییٰ بن یزید بھی ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے، جس سے روایت کی سند مزید کمزور ہو جاتی ہے۔

4. شاذان فضلی کا نامعلوم ہونا

شاذان فضلی کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں، اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اسی کی گھڑنت ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تبصرہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ سند اندھیری ہے اور اہل علم کے نزدیک اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے جھوٹا ہونے کے کئی وجوہات ہیں”۔
(منہاج السنۃ: 193/4)

روایت نمبر 12: سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور دیکھا کہ آپ کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا”۔
(منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 193/4)

تبصرہ

یہ روایت جھوٹی ہے، جیسا کہ:

1. شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تبصرہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس روایت کی سند غیر معتبر ہے اور اس میں موجود راوی عدالت اور حافظے کے اعتبار سے غیر معروف ہیں۔ ان کا کوئی ذکر علمی کتابوں میں نہیں ملتا”۔
(منہاج السنۃ: 193/4)

2. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا تبصرہ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ سند بھی اندھیری ہے اور اس کا متن منکر ہے۔ یہ سابقہ روایات کے سیاق کے بھی خلاف ہے، اور یہ سب کچھ اس روایت کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی واضح دلیل ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 92/6)

روایت نمبر 13: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سے دریافت کیا:
"کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھی ہے؟” سیدنا علی نے عرض کیا: "نہیں”۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ علی تیرے اور تیرے رسول کے کام میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے”۔ اللہ نے سورج کو واپس پلٹا دیا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی، پھر سورج غروب ہو گیا”۔
(تلخیص المتشابہ للخطیب: 225/1، الذریّۃ الطاہرہ للدولابي: 164)

تبصرہ

یہ روایت بھی جھوٹی ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. ابراہیم بن حیان کا ضعف

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ابراہیم بن حیان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا ہے”۔
(تلخیص المتشابہ: 225/1)

یہ بات واضح کرتی ہے کہ اس روایت کے راوی غیر معروف اور ناقابل اعتماد ہیں، جس سے اس روایت کی سند بھی ناقابل قبول بن جاتی ہے۔

روایت نمبر 14: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو حکم دیا، تو سورج تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گیا۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 4039، اللآلي المصنوعۃ للسیوطي: 312/1)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے، اور اس کے ضعف کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1. ولید بن عبدالواحد تمیمی کا حال نامعلوم

ولید بن عبدالواحد تمیمی کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے اس راوی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

2. ابو الزبیر کا تدلیس

ابو الزبیر مدلس ہیں اور انہوں نے اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں کی، جس سے روایت کی سند کمزور ہو جاتی ہے۔

خلاصہ تحقیق

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے پلٹ آنے کے متعلق جتنی بھی روایات بیان کی گئی ہیں، وہ سب کی سب ضعیف اور باطل ہیں۔ ان میں بعض روایات میں مجہول راوی، بعض میں ضعیف، اور بعض میں متروک راوی موجود ہیں۔ اس لیے یہ روایت اور فضیلت کسی بھی طریقے سے ثابت نہیں ہوتی۔

محدثین کے اقوال

1. حافظ ابو بکر محمد بن حاتم بن زنجویہ بخاری رحمہ اللہ

حافظ ابو بکر محمد بن حاتم بن زنجویہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ روایت سخت ضعیف اور بے اصل ہے، اور یہ روافض کی کارستانی ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 87/6)

2. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ امام ابن مدینی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
"یہ روایت بے اصل ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 93/6)

3. حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث منکر ہے اور اس میں کئی مجہول راوی موجود ہیں”۔
(تاریخ دمشق: 314/42)

4. امام عقیلی رحمہ اللہ

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس روایت میں کمزوری ہے”۔
(الضعفاء الکبیر: 328/3)

5. حافظ جورقانی رحمہ اللہ

حافظ جورقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث منکر اور مضطرب ہے”۔
(الأباطیل والمناکیر: 308/1)

6. حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے "موضوع” قرار دیا ہے۔
(الموضوعات: 356/1)

7. حافظ محمد بن ناصر بغدادی رحمہ اللہ

حافظ محمد بن ناصر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث من گھڑت ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 87/6)

8. حافظ ذہبی رحمہ اللہ

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے حافظ ابن ناصر کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
"ابن ناصر نے بالکل سچ کہا ہے”۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 87/6)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"یہ روایت جھوٹی ہے، اور صحیح نہیں”۔
(تلخیص الموضوعات: 118)

9. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے "من گھڑت” قرار دیا ہے۔
(منہاج السنۃ: 185/4، 195)

10. محمد بن عبید طنافسی اور یعلیٰ بن عبید طنافسی

محمد بن عبید طنافسی اور یعلیٰ بن عبید طنافسی رحمہ اللہ نے بھی اسے "من گھڑت” قرار دیا ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 93/6)

11. حافظ ابو الحجاج یوسف مزی رحمہ اللہ

حافظ ابو الحجاج یوسف مزی رحمہ اللہ نے بھی اسے "موضوع” قرار دیا ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 93/6)

12. حافظ ابن القیم رحمہ اللہ

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسے جھوٹی روایات میں ذکر کیا ہے۔
(المنار المنیف: 56/1)

13. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث ضعیف اور منکر ہے، اور اس کی تمام سندیں شیعہ، مجہول الحال اور متروک راویوں سے بھری ہوئی ہیں”۔
(البدایۃ والنہایۃ: 87/6)

14. علامہ معلمی رحمہ اللہ

علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس قصے کو اہل علم نے کئی وجوہات کی بنا پر منکر قرار دیا ہے”۔
(حاشیہ الفوائد المجموعۃ للشوکانی: 357-358)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1